Time 05 مارچ ، 2025
بلاگ

کیا بانی پی ٹی آئی ’مایوس‘ ہیں

ویسے تو لفظ ’مایوسی‘، جس عمران خان کو میں جانتا ہوں ،اس کے پاس بھی نہیں جاتا مگر سیاست کرکٹ سے مختلف کھیل ہے خاص طور پر مقابلہ اگر سب سے طاقتور سے ہو اور مخالف ہی نہیں اپنے بھی ساتھ نہ ہوں۔ 

شائد کپتان نے عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد چند بنیادی سیاسی غلطیاں کیں جنکی بدولت آج وہ 26؍نومبر 2024ء کے بعد کوئی ’کال‘ نہیں دے رہے۔ دو محاذ پر لڑائی آسان نہیں ہوتی خاص طور پر اگر آپ کی اپنی پارٹی ہی ساتھ نہ کھڑی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود تاحال پاکستان تحریک انصاف نہ کوئی مربوط تحریک چلا پائی اور نہ ہی پاکستان قومی اتحاد، اسلامی جمہوری اتحاد یا تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی طرز کا کوئی اتحاد بنا پائی۔ اصل غلطی خان سے کہاں ہوئی اور اب آگے راستہ کیا ہے۔ یہی آج کا سوال ہے۔

26؍ نومبر کو ڈی چوک پر کیا ہوا۔ ریاست نے کیا کیا اور خود پی ٹی آئی میں بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے کیوں مایوس کیا؟ پارٹی کے کارکنوں کا اگر بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوا تو دوسرے روز خود کے پی میں ہڑتال کیوں نہ ہوئی اور اچانک ملک میں ایک خاموشی سی چھاگئی۔ آج اس بات کو 3 ماہ ہونے کو ہیں نہ بانی کی طرف سے کوئی کال آئی نہ پارٹی کی طرف سے کوئی لائن دی گئی ۔

کبھی مولانا سے امیدیں تو کبھی اچکزئی سے اور اب بات سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تک آگئی ہے۔ دوسری طرف خان خط پر خط آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے لکھ چکے ہیں اور حیران کن جواب بھی سن چکے ہیں یعنی ’نہ کوئی خط آیا، آتا بھی تو وزیراعظم کو بھیج دیتا‘۔ پھر ایک خط چیف جسٹس سپریم کورٹ کو دستاویز کے ساتھ۔ خط ملنے کی تصدیق مگر پھر ایک طویل خاموشی اور اب ایک مضمون امریکہ کے مؤثر ترین اخبار میں۔ خیر اس پر حکومتی ترجمان کے جواب سے تو میں متفق نہیں کیوں کہ ملک کو اگر کسی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا تو وہ 8 فروری 2024ء میں فارم 47 نے، یہ جمہوریت پر ’کلنک کا ٹیکہ‘ تھا۔

خیر سوال تھا خان سے بڑی غلطی کہاں ہوئی۔ میرے نزدیک جب وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ عدم اعتماد کی تحریک نہیں آرہی اور آئیگی بھی تو ’ناکام‘ ہوگی، ورنہ وہ بڑی آسانی سے جنوری یا فروری میں جنرل باجوہ سے جنرل فیض کے معاملے میں اختلافات کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال میں اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرا سکتے تھے کیونکہ تحریک آنے کے بعد یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ دراصل ہمارے ہر حکمراں کا یہ مسئلہ رہا ہے کہ اسے ’اندرون خانہ‘ سازشوں کا علم ہی نہیں ہوتا وہ زیادہ تر انحصار ’انٹیلی جنس رپورٹس‘ پر کرتا ہے اب اگر اندر ہی سازش ہورہی ہو تو رپورٹس کیسے آئیں گی۔ 

1977 میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی، پہلے تو انہوں نے جلد بازی میں غلط مشیروں کے غلط مشورہ پر ایک سال قبل از وقت الیکشن کا اعلان کیا تو یقین نہیں تھا دائیں اور بائیں بازو کا اعتماد ہوجائے گا۔ نہ جمعہ کی چھٹی نہ شراب پر پابندی کام آئی اور نہ ہی بائیں بازو کی مؤثر جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر غیرضروری پابندی۔ وہ جنرل ضیاء کو برطرف کرسکتے تھے جس طرح عمران جنرل باجوہ کو مگر دونوں ہی سمجھے ’یہ ہمارا ہے‘۔

6؍اگست 1990کی صبح تک بے نظیر بھٹو شہید اس غلط فہمی میں رہیں کہ صدر غلام اسحاق خان یا جنرل اسلم بیگ تمغہ جمہوریت والے ان کے ساتھ ہیں اور شام کو ان کی حکومت برطرف کر دی گئی۔ ایسی ہی غلط فہمی کا شکار میاں نواز شریف رہے کہ غلام اسحاق خان کو وہ لانے والوں میں سے ہیں مگر 1993 میں ان کی حکومت بھی برطرف کردی گئی۔ ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ جیسی دھواں دار تقریر کی مگر پھر استعفیٰ دے دیا۔ پھر بی بی کی حکومت آئی صدر بھی اپنا تھا اور فوج سے بھی اختلاف نہ تھا مگر ریاستی پالیسی کے تحت ماورائے عدالت کراچی میں قتل عام ہی انکی حکومت کو گھر بھیجنے کا باعث بنا اور انکے قابل اعتماد ساتھی فاروق لغاری نے انہیں گھر بھیج دیا اور پھر عورت کی حکمرانی کے خلاف ذہنیت نے انہیں شہید کروادیا یا کر دیا۔

عمران کی سیاست 2013تک درست سمت میں تھی وہ اپنے آپ کو تیسرے آپشن کے تحت منوا چکے تھے۔ 2013 کے الیکشن میں ان کی کارکردگی بہتر تھی ایک ایسی جماعت جس نے 2002میں ایک سیٹ جیتی ہو وہ بھی خان کی اپنی، اسے اگر کے پی میں حکومت بنانی پڑ جائے پنجاب اور وفاق میں اچھی خاص نشستیں ہاتھ آجائیں تو 124 دن کے دھرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مگر وہ جنرل ظہیر الاسلام، جنرل پاشا جیسے افسران کے کہنے پر چلیں گے تو پھر فیصلے سیاسی نہیں ہو سکتے۔

 انہوں نے پارٹی کے دروازے تمام پارٹیوں کے ’لوٹوں‘ کیلئے کھول دیئے اور یہی بڑی غلطی تھی۔ عمران اور عارف علوی ان لوگوں کا دفاع کرتے رہےچاہےوہ جہانگیر ترین ہوں، علیم خان یا دیگر آنے والے۔ بدقسمتی سے وہ اگر 2013میں پارٹی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر ہی جسٹس وجیہہ الدین کی رپورٹ کو تسلیم کرلیتے تو آج اس مشکل میں نہ پڑتے۔ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف بڑی جماعت بن کر ابھری مگر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی ایسے میں ’زبردستی‘ کی حکومت بنانے کی غلطی ویسی ہی تھی جیسی محترمہ نے 1988 میں ’مشروط‘ حکومت بناکر کی۔ آخر وہی جماعتیں اور آزاد اراکین جو ان کے حوالے کئے گئے تھے تین سال بعد عدم اعتماد کی تحریک میں مخالف ہو گئے۔ جس نے حوالے کیے تھے اسی نے واپس لے لیے۔

سب سے بڑی غلطی 9مئی، اگر اس میں پارٹی ملوث نہیں بھی تھی اور بقول خان سازش تھی تو وہ اپنے آپ کو اس طرح الگ کرسکتے تھے جس طرح بے نظیر نے PIA ہائی جیکنگ کے بعد مرتضیٰ بھٹو سے اپنے آپ کو الگ کیا۔ وہ اس واقعے کی مذمت بھی کرسکتے تھے اور جو پارٹی کے لوگ مبینہ طور پر ملوث پائے گئے ان کی ممبر شپ معطل بھی کر سکتے تھے اور پھر پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردی گئی۔ بدترین تشدد بھی ہوا پی ٹی آئی کے بہت سے رہنمائوں اور کارکنوں پر۔

آج صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر ’بی‘ ٹیم بن گئی ہے اور پی پی پی بننے کی دوڑ میں ہے جبکہ ایم کیو ایم (پاکستان) کی حالت وہی ہے جو 2019 ءکے کالم ’ایک تھی ایم کیو ایم‘ میں لکھی تھی۔ عمران خان خود سوچیں کہ آج کیا وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اپوزیشن کا اتحاد نہیں بن پارہا۔ آخر کیوں اعتماد سازی کا فقدان ہے نہ جماعت اسلامی ساتھ دینے کو تیار ہے نہ جمعیت علمائے اسلام۔

مگر ایک بات جو آج بھی اس کو اپنے مخالفین سے منفرد کرتی ہے وہ اس کا مسلسل جیل میں رہنا، کبھی دو روز کیلئے بھی اسپتال نہ جانا، نہ ملک سے باہر جانا، اسے یقین ہے کہ الیکشن جب بھی ہوئے ’ووٹ‘ اس کے ساتھ ہے البتہ بڑھتی ہوئی مایوسی واضح نظر آرہی ہے کہ نہ پارٹی تحریک چلا پارہی ہے نہ اپوزیشن اتحاد بنا پارہی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔