Time 07 مارچ ، 2025
پاکستان

اسلام آبادہائیکورٹ: عدالتی عملےکی رشوت لینےکی شکایات پر جسٹس بابرستارکیجانب سے رجسٹرار کو خط

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تبادلے کے بعد ججز کے ساتھ ٹرانسفر ہو کر  آنے والے اسٹاف کی سائلین سے رشوت وصولی کی شکایات سامنے آنے پر جسٹس بابر ستار حرکت میں آگئے۔

جسٹس بابر ستار  نے اپنے سیکرٹری کو معاملے کی انکوائری کے لیے  رجسٹرار کو خط لکھنے کی ہدایات دیتے ہوئے خط کی کاپی قائم مقام چیف جسٹس سمیت تمام ججز کے سیکرٹریز کو بھجوا دیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ  اسلام آباد ہائی کورٹ میں تباہ کن پریکٹس نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے، اُن کے علم میں لایا گیا ہے کہ دیگر ہائی کورٹس سے ٹرانسفر ہوکر آنے والا کورٹ اسٹاف ریلیف لینے والے سائلین اور  وکلا کا پیچھا کرکے رقم کا مطالبہ کرتا ہے،کورٹ رومز اور کوریڈورز کی ویڈیو مانیٹرنگ ہوتی ہے، رجسٹرار آفس گزشتہ دو ہفتے کی فوٹیج نکال کر دیکھ سکتا ہے کہ اسٹاف مطالبہ کرکے رقم لے رہا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ ملازم کا ریلیف حاصل کرنے والے کسی سائل یا وکیل سے رقم کا مطالبہ کرنا مس کنڈکٹ ہے، ہائی کورٹ کے مستقل ملازمین اپنی سروسز کے عوض تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں، تمام عدالتیں بشمول ہائی کورٹس شہریوں کی خدمت اور انصاف کی فراہمی کے لیے بنائی گئی ہیں، شہریوں کو انصاف کی فراہمی کرنے والی عدالت میں اس کلچر کی کوئی گنجائش موجود نہیں، عدالتوں اور ان کے اسٹاف کو اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز میں پوری کرنی چاہئیں۔

خط میں کہا گیا ہےکہ کورٹ ملازمین کا کسی وکیل یا سائل سے رقم لینا رشوت ستانی کے زمرے میں آتا ہے، اس طرح رقم لینا انصاف کی فراہمی کے بدلے میں رینٹ لینے کے مترادف ہے، خط کے مطابق یہ بات سب کے علم میں ہےکہ کچھ دیگر ہائی کورٹس کا اسٹاف سائلین و وکلا سے رقم کا مطالبہ کرتا ہے جن ہائی کورٹس میں اس پریکٹس کو تباہ کن تصور کرتے ہوئے بھی برداشت کیا جاتا ہے ان کےکلچر کا حصہ بن چکا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایسی کوئی پریکٹس موجود نہیں۔

خط میں کہا گیاکہ تشویشناک ہےکہ دیگر ہائی کورٹس سے اسٹاف ٹرانسفر کے بعد رقم کا مطالبہ کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، رقم کا مطالبہ کرنے کی اس برائی کو لازمی طور پر جڑ سے ختم کیا جانا چاہیے، پاکستان کی کچھ عدالتوں کے احاطوں میں دیواروں پر 'رقم کا مطالبہ سختی سے منع ہے' لکھا ہوا ہے، اس کے باوجود ان سائن بورڈز کے نیچے رقم کا مطالبہ بھی ہوتا ہے اور رقم لی بھی جاتی ہے، اگر اس مرحلے پر اس پریکٹس کو کارروائی کرکے ختم نہیں کیا جاتا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کا کلچر خراب ہوگا۔

مزید خبریں :