08 مارچ ، 2025
عامی اکثر حیران ہوتا ہے کہ اڈیالہ میں ہر کوئی عمران خان سے ملتا ہے مگر بے چارے پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے نہ کسی ملاقاتی کا نام سننے میں آتا ہے نہ تحریک انصاف کے چیئرمین یا ان کے نامزد کردہ رہنماؤں اور وکیلوں نے کبھی ملتانی مخدوم کا نام بھولے سے بھی لیا ہے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بظاہر نہ شاہ محمود قریشی کا مقتدرہ سے کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کی قیادت انہیں لفٹ کرواتی ہے۔ شاہ محمود ہوں یا اعجاز چوہدری، محمود الرشید یا یاسمین راشد، یہ سبھی 9مئی کے بعد سے مسلسل قید میں ہیں مگر تحریک انصاف کے کسی بھی فیصلے میں ان سے مشورہ تک نہیں لیا جاتا بظاہر شاہ محمود قریشی سے تحریک انصاف یا عمران خان کا کوئی اختلاف نہیں۔
بظاہر نہ شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کے ہر فیصلے پر صاد کہا ہے نہ کوئی گروپ بنایا ہے، نہ مقتدرہ سے معافی مانگی نہ انہیں کوئی رعایت ملی ہے لیکن بظاہر اس کا مل وفاداری کے باوجود کپتان کو ان پر کوئی شک ضرور ہے یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کو غیر ضروری طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ ملتان کے مخدوم قریشی خاندان کا ریکارڈ سیاسی وفا داری میں کوئی مثالی نہیں رہا۔ شاہ محمود قریشی نے بطور نوجوان آئی جے آئی یا آج کی نون لیگ سے سیاست کا آغاز کیا پنجاب کابینہ کے رکن رہے ان کے والد سجاد قریشی بھی اسی جماعت اور جنرل ضیاءالحق کی نوازش سے گورنر پنجاب رہے۔ ٹکٹ کے جھگڑے پر انہوں نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑا اور پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اپنے سارے خاندان کو بھی پیپلز پارٹی میں شامل کرا دیا، محترمہ بے نظیر نے انہیں وفاقی وزیر بنادیا۔
جنرل مشرف کے مارشل لاکے دوران وہ پیپلز پارٹی میں رہے مگر وہ جنرل مشرف سے بھی پس پردہ رابطے میں تھے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد دوسرے ملتانی مخدوم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو شاہ محمود قریشی کو وزیر خارجہ بنا دیا گیا مگر پھر انکے یوسف رضا گیلانی سے اختلاف بڑھنے لگے اور اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا سے قربت ہو گئی بالآخر انہوں نے ریمنڈ ڈیوس کے واقعے کا بہانہ کرکے وفاقی وزارت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یوں جنرل پاشا کی مدد اور تعاون سے مقتدرہ کے نئے پراجیکٹ تحریک انصاف میں ڈھول تَاشوں کے ساتھ شامل ہوئے۔
عمران خان کی حکومت بنی تو پھر وزیر خارجہ بنا دیئے گئے سائفر کے معاملے میں وہ عمران خان کے ہم زبان اور امریکہ مخالف بیانیے میں پیش پیش تھے بظاہر وہ آج تک عمران خان کے مکمل وفادار ہیں، جیل میں ہی ملتان سے الیکشن بھی جیت گئے لیکن اسکے باوجود انکے بارے میں یہ شک پارٹی کی صفوں سے لیکر قیادت تک کے ذہنوں میں ہے کہ ان کو کسی بھی دن متبادل قیادت کے طور پر لایا جا سکتا ہے۔
یہ شک اس وہم پر کیا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے ماضی میں کئی بار وفاداریاں بدلی ہیں۔ مخدوم خاندان ہمیشہ سے مقتدرہ کا فیورٹ رہا ہے اور قریشی صاحب پر کسی بھی وقت مہربانیوں کی بارش ہو سکتی ہے۔ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی ساری قیادت سے زیادہ سیاسی تجربے کے حامل ہیں مقتدرہ اور اہل سیاست سے ڈیل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں پارٹی میں عمران خان کے بعد سب سے اہم عہدہ ان کے پاس ہے۔ شاہ محمود پنجاب اور سندھ کے سارے جاگیردار گھرانوں سے ذاتی تعلق رکھتے ہیں ان کا سندھ اور پنجاب کے کئی انتخابی حلقوں میں سیاسی اثر و رسوخ بھی ہے۔
بظاہر یہ چیزیں شاہ محمود قریشی کی سیاسی اہمیت ظاہر کرتی ہیں لیکن تحریک انصاف کی اندرونی سیاست میں یہی چیزیں ان کے خلاف کام کرتی ہیں، پراپیگنڈا یہی کیا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی مضبوط ہوا تو اپنا دھڑا بنالے گا، خان کو دھوکہ دے دے گا یا پھر کوئی بڑا نقصان کر دے گا۔ حالیہ 3برسوں میں شاہ محمود قریشی جس طرح ڈٹ کر کھڑے رہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے سوائے مزاحمت کے کسی دوسرےآپشن پر غور تک نہیں کیا اور بقول ان کے ملتانی حامیوں کے، شاہ ڈٹ کر کھڑا ہے!
تاریخی طور پر ملتان کے قریشی مخدوم خاندان کا کردار انتہائی اہم اور کئی حوالے سے متنازعہ بھی رہا ہے۔
اس سہروردی خاندان کو مسلم حکمرانوں کےشیخ الاسلام رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے، ان پر یہ الزام بھی ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی میں انہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا آزادی کے سورما رائےاحمد خان کھرل کے خلاف لابی کرنے اور پھر اس کی شہادت و ناکامی میں اس وقت کے مخدوم شاہ محمود قریشی کا بڑا ہاتھ تھا (حالیہ شاہ محمود قریشی کا نام اپنے اسی بزرگ کے نام پر رکھا گیا تھا)۔ دوسری طرف سکھوں نے ملتان پر حملہ کیا تو ملتان کے قریشی مخدوم نے مسلم نواب آف ملتان مظفر خان کی پشت پناہی کی بوڑھا نواب مظفر خان اپنے جوان بیٹوں اور بیٹی سمیت شہید ہو گیا نواب نے اپنی وصیت میں اپنی قبر اس دروازہ پر بنانے کو کہا جہاں سے حضرت زکریا ملتانی کے دربار پر سلام کرنے والے کو نواب مظفر خان کی قبر پر پائوں رکھ کر گزرنا پڑتا ہے۔ گویا سکھوں کے خلاف مزاحمت میں مخدوم قریشیوں کا کردار تاریخی تھا۔
شاہ محمود قریشی کا المیہ یہ لگتا ہے کہ قربانیاں دینے کے باوجود کپتان خان اور ان کے اندھے عقیدت مند ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں حالانکہ شاہ محمود قریشی کو موقع دیا جاتا تو وہ کوئی نہ کوئی سیاسی راستہ نکال لیتے۔ وہ اے آر ڈی میں بھی سرگرم رہے ہیں اور انہیں سیاسی جوڑ توڑ کا بھی بہت تجربہ ہے ۔
تحریک انصاف ملک کی مقبول جماعت ضرور ہے مگر ایک تو وہ ریاست کو قبول نہیں دوسرا اسکی قیادت میں کوئی ایک بھی معقول شخص نہیں جو حالات کو معمول پرلانے کا فن یا ہنر جانتا ہو،سب کے سب نمبر بناتے ہیں اپنی جھوٹی لڑائیوں سے کپتان کو جیل میں بند رکھنے کا انتظام کر رکھا ہے گالیاں یہ نکالتے ہیں غصہ کپتان پر نکلتا ہے ۔
یہ کیسے حامی یا وفادار ہیں جن کے پاس خان کو تکلیفیں دینے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں یا تو یہ سارے عقل سے عاری ہیں کہ خان کو نکالنے میں ناکام ہیں یا پھر یہ سارے اس قدر عقلمند ہیں کہ خان کو باہر ہی نہیں آنے دیتےکیونکہ خان باہر آ گیا تو روز ٹی وی پر شکلیں دکھانے والوں کو غائب ہونا پڑے گا۔ ٹرمپ کارڈ تو گیا اس سے پہلے عدالتی کارڈ،جرنیل کارڈ، آئی ایم ایف کارڈ، اپوزیشن کارڈ، دھرنا کارڈ سب ناکام ہو چکے اب شاہ محمود کارڈ آزما کر دیکھ لیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔