Time 12 مارچ ، 2025
بلاگ

کہیں دیر نہ ہوجائے

جو قوم اپنے پیروں پر نہیں بیساکھیوں پر کھڑی رہتی ہے وہ بس سہاروں اور اشاروں پر ہی زندہ رہ سکتی ہے اس لئے ایک طرف ہم امریکی صدر کے ’شکریہ‘ پر ہی خوش ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف اس امید میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صدر کی حمایت کرتے ہیں کہ شائد وہ ہمارے لیڈر کو جیل سے رہائی میں مدد دے گا۔

 آج ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی بڑھتا جارہا ہے اور دہشت گردی، انتہا پسندی کے بادل بھی گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ مغربی بارڈر آج مشرقی بارڈر سے زیادہ غیر محفوظ نظر آتا ہے۔ ایک طرف افغانستان، ایران تو دوسری طرف بھارت۔ آخر وہ کون سی پالیسیاں تھیں جو آج آپ کو دہشت گردی کے دہانے پر لے آئی ہیں۔

اپنی صحافتی زندگی میں کئی واقعات دیکھے جس سے اُس وقت بھی مجھ جیسے رپورٹر کو نظر آرہا تھا کہ ہم دہشت گردی کی دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں اور اب تو کھائی سے نکلنے کا وقت ہے۔ 1979ء اور 1981ء میں ایران اور افغانستان میں آنے والی غیر معمولی تبدیلیوں کے براہ راست اثرات پاکستان میں محسوس کیے جانے لگے۔ یقین نہ آئے تو تہران میں واقع امریکی سفارت خانہ سے برآمد ’پاکستانی پیپرز‘ پڑھ لیں۔ تبدیلی وہاں آئی تھی اور پراکسی وار پاکستان کے شہروں میں خاص طور پر کراچی میں شروع ہو چکی تھی جس کے کئی واقعات میں غیر ملکی بھی شامل تھے۔ ہم نے بدقسمتی سے اپنی سرزمین غیرملکی جہادیوں کے سپرد کردی جہاد افغانستان کے نام پر۔ یہی وہ موقع تھا جس پر خان عبدالولی خان نے کہا تھا ’’ایسا نہ ہو جو گولی آج یہاں سے کابل جا رہی ہے کل واپس پلٹ کر اسلام آباد کی طرف آ جائے‘‘۔

ہم ’گلوبل ٹیرر‘ کے ریڈار میں بہت پہلے آگئے تھے مگر 1986ء کے واقعہ نے ہلاکر رکھ دیا یہ 4یا 5ستمبر کی بات ہے جب کراچی ائیرپورٹ پر بمبئی سے نیویارک جانیوالے 'Pan-Am' کے جہاز نے ائیرپورٹ پر لینڈ کیا اور کچھ دیر بعد ہی خبر آئی کے پرانے ٹرمینل پر کھڑے جہاز میں چار افراد اسلحہ و بارود لے کر چڑھ گئے ہیں اور 362مسافروں کو یرغمال بنا لیا ہے۔ کوئی سات آٹھ گھنٹے کے ڈرامے کا ڈراپ سین کمانڈو آپریشن پر ہوا جس میں 20مسافر بشمول غیرملکی اور پاکستانی، بھارتی ہلاک اور 50سے زائد زخمی ہوئے۔ البتہ چاروں ہائی جیکر جن کا تعلق ’ابوندال‘ گروپ سے تھا پکڑے گئے بعد میں ان کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہو گئی اور 2005میں ان میں سے ایک اہم ترین قیدی کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔

افغانستان سے روس چلا گیا مگر پچاس ہزار سے زائد جو عرب اور افریقی ممالک سے ’مجاہدین‘ آئے وہ پھر واپس نہیں گئے اور 50لاکھ مہاجرین بھی ادھر ہی بس گئے۔ اسلحہ اور ڈرگ کا کاروبار پاکستان میں فروغ پانے لگا اور کراچی اس کی خاص مارکیٹ بن گیا۔ اوجڑی کیمپ اور خود جنرل ضیاء کا 17اگست 1988ء کا حادثہ سب اس پس منظر اور پالیسیوں کا نتیجہ ٹھہرے۔ 90کی دہائی میں ہم سے ایک بار پھر بڑی بنیادی غلطی ہوئی اور وہ تھی ’طالبان‘ کو کھڑا کرنا بعد میں تحریک طالبان کے بطن سے ہی تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے انتہاپسند اور شدت پسند گروپس تشکیل پانا شروع ہو گئے۔

 1993ء میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو ان پر دونوں ادوار میں واضح کر دیا گیا تھا کہ وہ ’افغان پالیسی‘ سے دور رہیں گی۔ 1995ء میں مصر کی انٹیلی جنس نے کئی سو اخوان المسلمین کی پاکستان میں موجودگی کی نشاندہی کی تو انہیں اس کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوا جس کے ردعمل میں اسلام آباد میں مصری سفارت خانہ کو خود کش کار بم سے اڑانے کی غرض سے حملہ ہوا جس میں 17 افراد ہلاک اور 62 زخمی ہوگئے۔

تصور کریں ابھی 9/11نہیں ہوا تھا۔ اسی سال یعنی 1995میں کراچی میں ہی نرسری کے قریب امریکی سفارت خانہ کی گاڑی پر فائرنگ میں دو سفارت کار ہلاک ہوئے اور اسی سال پاکستان نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے پہلے واقعہ میں ملوث رمزی یوسف کو امریکہ کے حوالے کیا۔ اگست 2001ءمیں یعنی 9/11سے ایک ماہ پہلے ہی پاکستان میں تمام فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور اکاؤنٹ منجمد کر لئے گئے اور پھر 9/11کے بعد جنوری 2002ءمیں تمام جہادی تنظیموں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے سرکردہ رہنما اور طالبان کے کمانڈرز نے پاکستان کا رخ کرلیا۔ دنیا بدل چکی تھی اور اب ہمیں اپنے ہی بنائے ہوئے طالبان اور ان جیسے گروپس سے خطرہ لاحق ہو گیا۔

 دوسری طرف مذہبی جماعتوں نے امریکی فوجی مداخلت کے خلاف پاکستان میں ایک نیا محاذ کھول دیا۔ 2002کئی لحاظ سے پاکستان کے لئے خون آشام سال رہا کئی خود کش حملے ہوئے کراچی میں تین حملے امریکیوں پر ہوئے جن میں کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے فرانسیسی انجینئرز کی بس پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے سامنے ہوٹل میں ٹھہری نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ میچ چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ 2006میں امریکی صدر جارج بش کے پاکستان آنے سے چند دن پہلے ایک بار پھر کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے قریب کار دھماکے میں ایک سفارت کار سمیت تین دیگر افراد ہلاک ہوئے۔

ہماری پالیسی کا کمال یہ ہے کہ ہم نے بڑے بڑے آپریشن کرکے اپنے علاقے جیسا کہ شمالی وزیرستان ،جنوبی وزیرستان اور مالاکنڈ دہشت گردوں سے خالی تو کرا لیے مگر آج بھی وہاں ریاست کی رٹ پر سوالیہ نشان ہے۔ افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں کے دوران ہماری ریاست کا جھکاؤ طالبان کی طرف رہا کیونکہ ہمارے خدشات تھے کہ بھارت نے وہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔ 

آج وہاں طالبان کی حکومت ہے اور اب ہمارا تنازع طالبان کی حکومت سے ہے جو ہمارے سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان ہے اور وہاں دہشت گردی اور شدت پسندی کا نشانہ یا تو چینی باشندے یا انجینئر بن رہے ہیں یا غیرمقامی لوگ خاص طور پر پنجاب سے آئے ہوئے افراد جن میں زیادہ تر مزدور ہیں۔ البتہ کراچی آج ماضی کے مقابلے میں کم از کم 80اور 90کی دہائی کی نسبت بہت بہتر ہے مگر VIPs کی دہشتگردی نے عام شہریوں کی زندگی عذاب میں ڈال دی ہے۔ اگر دہشتگردی دہشت پھیلانے کا نام ہے تو شاہ زین مری کی مثال سامنے ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں ہاتھوں میں گن اور منہ پر نقاب ڈالے سرکاری اور پرائیویٹ گارڈ روز ہی دہشت کی علامت نظر آتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے مزاحمتی بیانات سے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے والے روایتی بیانات سے باہر نکلیں۔ امریکہ اور ہم میں اتنا ہی فرق ہے کہ وہ اپنے شہریوں اور فوجیوں کو ہلاک کرنے والوں کا آخری دم تک پیچھا کرتاہے اور ہم اپنے ہی بچوں کو APS میں شہید کرنے والے ایک ماسٹر مائنڈ کو قید سے فرار ہونے کےبعد بھول جاتے ہیں۔ اب ڈاکٹر عافیہ کو اگر ہم نے ہی حوالے کیا تھا تو واپس لانے میں مسئلہ تو ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔