Time 13 مارچ ، 2025
بلاگ

بلوچستان کے گرگٹ

یہ 24مئی 1998ءکا واقعہ ہے گوادر ائیر پورٹ سے پی آئی اے کا ایک فوکر جہاز کراچی کیلئے روانہ ہوا۔ جہاز کے فضاء میں بلند ہونے کے تھوڑی دیر بعد تین مسافروں نے اسلحہ نکال کر جہاز کا رخ نئی دہلی کی طرف موڑنے کا حکم دیا۔ جہاز کے کپتان عذیر خان نے ہائی جیکروں کو بتایا کہ اس کے پاس ایندھن بہت کم ہے وہ نئی دہلی تک نہیں جا سکتا۔

 ہائی جیکروں کے پاس ایک نقشہ تھا اور وہ نقشے کی مدد سے کوئی ایسا بھارتی ائیر پورٹ تلاش کر رہے تھے جہاں یہ فوکر جہاز لینڈ کر سکتا تھا۔ جہاز میں 33مسافر اور عملے کے پانچ افراد موجود تھے عذیر خان نے ہائی جیکروں کو بتایا کہ وہ جہاز کو بھارتی گجرات کے بھوج ائیرپورٹ پر اتار سکتا ہے۔ ہائی جیکروں نے صلاح مشورے کے بعد اسے بھوج کی طرف جانے کی اجازت دیدی۔

 ایک ہائی جیکر کاک پٹ میں کپتان کےساتھ موجود تھا اور دو ہائی جیکروں نے مسافروں پر اسلحہ تان رکھا تھا کپتان نے کچھ دیر کیلئے جہاز کو فضاء میں گھمایا اور وہ شام کے سائے گہرے ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ پھر اس نے ہائی جیکروں کو نقشے کی مدد سے بتایا کہ وہ پاکستان کی حدود سے نکل کر بھارت میں داخل ہو گیا ہے پھر کپتان نے انگریزی میں بھوج ائیر پورٹ کا نام لیکر بتایا کہ اس کا جہاز اغوا ہو چکا ہے اس لئے وہ بھوج میں لینڈ کرنا چاہتا ہے۔ 

کنٹرول ٹاور نے فوری طور پر کپتان کو کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ کپتان نے یہ پیغام بھوج ائیر پورٹ کو نہیں بلکہ پاکستان کے شہر حیدر آباد کے ائیر پورٹ کو دیا تھا۔ حیدر آباد ائیر پورٹ کے عملے نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور کپتان کو لینڈ کرنے کی اجازت دیدی۔ کپتان نے حیدرآباد ائیر پورٹ کے رن وے پر لینڈ کیا اور جہاز کو عمارت کے قریب لیجانے کی بجائے کافی فاصلے پر کھڑا کر دیا تاکہ پتہ نہ چلے کہ جہاز کون سے ائیر پورٹ پر آیا ہے۔ رات ہو چکی تھی اور ائیر پورٹ کے عملے نے مرکزی عمارت کی روشنیاں بجھا دیں تاکہ ائیر پورٹ پر کوئی تحریر پڑھ کر ہائی جیکر اندازہ نہ لگا سکیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

 ائیر پورٹ کے عملے نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔ ایس ایس پی حیدر آباد اختر گورچانی اور ایک نوجوان اے ایس پی عثمان انور ائیرپورٹ پر پہنچ گئے۔ ان دونوں نے فوری طور پر حیدر آباد کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ شہر کی مساجد سے لاؤڈ سپیکر پر کوئی اذان نہ دی جائے کچھ دیر کے بعد ہائی جیکروں نے جہاز کے انجینئر کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ بابا جان کے آدمی ہیں اور انڈیا کے زی ٹی وی کو انٹرویو دینے کیلئے تیار ہیں۔ 

اختر گورچانی اور عثمان انور نے فیصلہ کیا کہ کراچی سے کمانڈوز کے آنے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ خود ہی کوئی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ اختر گورچانی نے سویلین ڈریس پہن لیا اور وہ بھوج ائیر پورٹ کے مینجر منوج کمار جبکہ عثمان انور اسسٹنٹ مینجر رام چندر بن گئے۔ گرمی بہت زیادہ تھی ہائی جیکروں نے پانی مانگا تو یہ دونوں پولیس افسر پانی کی بوتلیں لیکر خود جہاز کے پاس چلے گئے۔ 

ہائی جیکروں نے پانی لے لیا اور زی ٹی وی کے متعلق پوچھنے لگے اختر گورچانی اور عثمان انور کو سمجھ آ چکی تھی کہ تینوں ہائی جیکر بلوچ علیحدگی پسند ہیں اور انہوں نے بھارتی خفیہ ادارے را کی ملی بھگت سے جہاز اغوا کیا ہے۔ چند دن قبل بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور اب پاکستان بھی جوابی ایٹمی دھماکے کرنے کی تیاری میں مصروف تھا۔ 

بھارت نے پاکستان کو بلیک میل کرنے کیلئے تین بلوچ نوجوانوں کو استعمال کیا اور پی آئی اے کا ہوائی جہاز اغواء کرا دیا۔ عثمان انور نے ہائی جیکروں کو رام چندر بن کر بتایا کہ زی ٹی وی کے پاس بھوج میں کوئی کیمرہ مین نہیں ہے اس لئے زی ٹی وی کی ٹیم نئی دہلی سے آ رہی ہے۔ اس دوران عثمان انور کو پتہ چل گیا کہ ہائی جیکروں کے پاس کوئی ہینڈ گرنیڈ نہیں ہے صرف دو پسٹل ہیں پھر رینجرز کا ایک میجر عامر ہاشمی کھانا لیکر جہاز کے پاس آ گیا اور کچھ دیر کے بعد منوج کمار، رام چندر اور عامر ہاشمی نے تینوں ہائی جیکروں پر حملہ کر کے انہیں دبوچ لیا۔

 دھینگا مشتی میں ہائی جیکروں نے ایک فائر کیا جو ان کے اپنے ساتھی کولگ گیا۔ عثمان انور زخمی ہو گئے لیکن اس دوران مزید کمک آ گئی اور تینوں ہائی جیکر گرفتار ہو گئے۔ یہ آپریشن مکمل ہوا تو ایک ائیر ہوسٹس نے شور مچا دیا کہ اسے پاکستان واپس بھیجا جائے جب اسے بتایا گیا کہ گھبراؤ نہیں تم پاکستان میں ہی ہو تو وہ خوشی سے رونے لگی۔ ان ہائی جیکروں کا سرغنہ شہسوار بلوچ تھا اس کے دو ساتھی صابر بلوچ اور شبیر رند بی ایس او سے تعلق رکھتے تھے۔ ان تینوں نے گوادر ائیر پورٹ پر اے ایس ایف کے ایک اہلکار کی ملی بھگت سے اسلحہ جہاز میں سمگل کیا اورتینوں جعلی ناموں سے جہاز میں سفر کر رہےتھے۔ 

28مئی 1998ء کو پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا ان تینوں کو 28مئی 2015ء کو پھانسی دیدی گئی۔ اختر گورچانی بعد میں انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آ گئے۔ عثمان انور آج کل آئی جی پنجاب ہیں بلوچ علیحدگی پسندوں نے 1998ء میں ہوائی جہاز اغواء کیا لیکن اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکے۔ مارچ 2025ء میں انہوں نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی ایک ٹرین کو اغواء کیا ہے۔ ٹرین کے اغواء اور قتل وغارت سے بھی بلوچوں کیلئے خیر نہیں نکلے گی لیکن 1998ء اور 2025ء میں کافی فرق ہے۔

 1998ء میں دو پولیس افسروں نے اسلحے کے بغیر تین مسلح ہائی جیکروں پر قابو پالیا تھا۔ 2025ء میں پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ ہائی جیکروں نے ٹرین اغواء کر کے دنیا کو یہ تو بتا دیا کہ بلوچستان کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں لیکن تشدد اور قتل وغارت کے ذریعہ وہ آج بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔ 

ٹرین ہائی جیک کرنیوالوں پر قابو پانے کیلئے ریاستی اداروں نے کافی جانی نقصان اٹھایا۔ اس ہولناک واقعے نے ہمیں وزیر داخلہ محسن نقوی کا وہ بیان یاد دلایا ہےکہ ’بلوچ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں‘۔ ان سے گزارش ہے کہ وفاقی کابینہ اور پارلیمینٹ میں موجود بلوچوں سے آف دی ریکارڈ پوچھ لیں کہ بلوچستان کے حالات کیا ہیں؟ بلوچستان میں پہلی دفعہ ٹرین پر فائرنگ نہیں ہوئی ٹرینوں پر حملے نواب نوروز خان زرکزئی کی گرفتاری اور جیل میں موت کے بعد شروع ہوئے۔

 اکبر بگٹی کی 2006ء میں شہادت کے بعد ٹرینوں پر حملوں میں مزید شدت آئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔آج بلوچستان میں ویسے ہی حالات ہیں جو 1973ء میں تھے 1973ء میں وفاقی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان نے عراقی سفارتخانے سے اسلحہ برآمد کیا اور بلوچستان میں نیپ کی منتخب حکومت کو ملک کیخلاف سازش کا الزام لگا کر برطرف کرا دیا۔ اکبر بگٹی کو گورنر بنا کر فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور سپریم کورٹ کے ذریعہ نیپ پر پابندی لگا دی گئی۔ پیپلز پارٹی نے جام غلام قادر کے ساتھ مل کر صوبے میں حکومت بنا لی۔

 ستم ظریفی دیکھئے کہ نہ تو نیپ پر پابندی لگوانے والے ذوالفقار علی بھٹو پر کسی نے رحم کیا اور نہ انکا ساتھ دینے والے اکبر بگٹی کو کسی جرنیل نے قبول کیا۔ جام غلام قادر جنرل ضیاء کی مدد سے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے انکے برخوردار جام یوسف جنرل مشرف کی مدد سے وزیر اعلیٰ بنے اور انکے پوتے جام کمال کو جنرل باجوہ نے وزیر اعلیٰ بنوایا۔ آج پھر بلوچستان پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور حالات آپ کے سامنے ہیں بلوچستان میں بھارت کی سازشوں سے کسی کو انکار نہیں لیکن کیا گرگٹ کی طرح اپنے سیاسی رنگ بدلنے والے سیاست دان بلوچستان کے حالات سدھار پائیں گے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔