Time 17 مارچ ، 2025
بلاگ

احسان فراموش

یہ احسان فراموشی کی بحث تھی۔ بحث کا آغاز کالج کے دو طلبہ کے درمیان ہوا ۔ دونوں کلاس فیلوز بھی تھے اور دوست بھی تھے۔ بحث کا آغاز سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ سے ہوا جس میں کہا گیا کہ افغان بڑے احسان فراموش ہوتے ہیں۔ پھر ایک اور پوسٹ زیر بحث آئی جس میں کسی نے یہ کہا تھا کہ پاکستانی بڑے احسان فراموش ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو انکے گھر پر نظر بند کرکے انکی خوب کردار کشی کی۔

 بحث میں اُس وقت تلخی پیدا ہوگئی جب ایک دوست نے کہا کہ میں بھی افغان ہوں۔ دوسرے نے کہا پھر تم افغانستان چلے جاؤ۔ پہلے نے اُسے بتایا افغان دراصل ایک قومیت ہے اور پاکستان کے پختون علاقوں میں رہنے والے اکثر پاکستانی اپنے آپ کو افغان قرار دیتے ہیں حالانکہ اُنکا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس بحث میں دیگر طلبہ بھی شامل ہو گئے۔ معاملہ ٹیچر تک پہنچ گیا۔ 

ٹیچر نے طلبہ کو سمجھایا کہ لفظ پاکستان کا پ پنجاب، الف افغانیہ، ک کشمیر، س سندھ اور تان بلوچستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں رہنے والے اکثر لوگ اپنے آپ کو افغان کہتے ہیں اسلئے گفتگو میں احتیاط کریں۔ افغانستان کی حکومت سے اختلافات کے باعث تمام افغانوں کو احسان فراموش قرار دینا بہت سے پختون پاکستانیوں کی دل آزاری کا باعث بن سکتا ہے۔ بحث یہاں ختم نہیں ہوئی۔ ٹیچر یہ معاملہ کالج کے پرنسپل کے پاس لے گیا اور اُنہیں مشورہ دیا کہ تمام طلبہ کے والدین سے کہا جائے کہ اپنے بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھیں کیونکہ سوشل میڈیا اُنہیں غیر ضروری بحثوں میں اُلجھا دیتا ہے۔ 

پرنسپل نے اگلے دن سینئراساتذہ کا اجلاس بلا لیا جس میں یہ تجویز مسترد کردی گئی اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ نئی نسل پر پابندیاں لگانے کی بجائے اُسے سچ بتانا چاہئے۔ اس کالج میں مطالعہ پاکستان اور تاریخ کے ایک سینئر اُستاد ریٹائر ہونیوالے ہیں۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کی تاریخ پر ایک کتاب لکھنا چاہتے ہیں تاکہ کم از کم پاکستان کی تاریخ، جغرافیے اور ثقافت کے بارے میں کنفیوژن دور ہو سکے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا ہے اُس میں کہیں پہ ذکر نہیں آتا کہ 14اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا تو آج کا بلوچستان موجودہ شکل میں پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔ قلات 1948ءمیں پاکستان کا حصہ بنا۔

 مطالعہ پاکستان کی کسی کتاب میں نواب محمد خان جوگیزئی، میر جعفر خان جمالی اور اکبر بگٹی کا ذکر نہیں جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ جعفر ایکسپریس کو تو سب جانتے ہیں میر جعفر خان جمالی کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ 29جون 1947ء کو بلوچ قبائلی علاقوں کے شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپلٹی کے ارکان کا اجلاس ہوا ۔ اکبر بگٹی نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ 1958ء میں اکبر بگٹی بطور وزیر داخلہ ملک فیروز خان نون کی اُس حکومت کا حصہ تھے جس نے گوادر کو پاکستان میں شامل کیا ۔ گوادر کے پاکستان میں شامل ہونے کے چند دن بعد جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کیساتھ ملکر مارشل لا لگا دیا۔ وزیر اعظم نون صاحب نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا اور اکبر بگٹی کو جیل میں پھینک دیا گیا۔ اسکندر مرزا نے بطور سیکرٹری دفاع ایوب خان کو سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر سے اُٹھا کر آرمی چیف بنوایا اور پھر گورنر جنرل بن کر اس آرمی چیف سے مارشل لا لگوایا لیکن ایوب خان نے اپنے محسن اسکندر مرزا سے چند دن بعد استعفیٰ لیکر جلا وطن کر دیا۔

آج کی نئی نسل کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ابتدا میں بنگال کو پاکستان میں شامل کرنے کی بجائے ایک علیحدہ ریاست بنانے کی اسکیم تھی۔ یہ حسین شہید سہروردی تھے جنہوں نے 1946ء میں قرارداد دہلی کے ذریعہ بطور وزیراعظم متحدہ بنگال اپنے صوبے کو پاکستان کا حصہ بنانے کا اعلان کیا ۔ پاکستان بن گیا تو ایوب خان کے دور حکومت میں سہروردی صاحب پر بغاوت کا مقدمہ قائم کردیا گیا۔ 

جنرل ایوب خان کا تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن اُنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کیلئے تحریک پاکستان کے رہنماؤں کو غدارِ قرار دیا۔ مادِر ملّت فاطمہ جناح نے جنوری 1965ء میں اس فوجی آمر کیخلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو مادر ملّت کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا ۔ شیخ مجیب الرحمان سے خان عبد الولی خان، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری اور مولانا مودودی تک مادر ملّت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ فوجی آمر نے ان سب کو بھی ملک دشمن قرار دیا اور دھاندلی کے ذریعہ مادر ملّت کو شکست دیدی۔

 یہ دھاندلی پاکستان کے ساتھ سب سے بڑی احسان فراموشی تھی کیونکہ اس دھاندلی نے بنگالیوں کو پاکستان سے بدظن کر دیا ۔ 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو سنبھالا۔ انہوں نے نوے ہزار جنگی قیدی بھارت سے رہا کرائے، 1973 ء کے آئین پر اتفاق کرایا اور ایٹمی پروگرام شروع کیا۔لیکن بلوچستان کی منتخب حکومت کو برطرف کیا، نیپ پر پابندی لگائی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن بھی شروع کیا۔ پھر 1979ء میں جنرل ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام کے اس بانی کو پھانسی پر لٹکا دیا۔

 1988ء میں بینظیر بھٹو صاحبہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ سمجھوتہ کرکے وزیر اعظم بنیں۔ اُنکی حکومت 20ماہ بعد برطرف کر دی گئی۔ 1993ء میں وہ دوبارہ وزیراعظم بنیں۔ امریکا کی ناراضی مول لے کر شمالی کوریا گئیں ۔ انہوں نے پاکستان کو غوری میزائل کی ٹیکنالوجی دلوائی لیکن دوسری مرتبہ بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکیں ۔ نواز شریف نے 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا لیکن ایک سال کے بعد اس ہیرو کی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے اسے جیل میں قید کر دیا گیا ۔ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے تینوں مرتبہ اپنی حکومت کی مدت پوری نہ کر سکے ۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میںمسلم لیگ (ن) کو ختم کرنے کیلئے مسلم لیگ (ق) بنائی ۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی اپنے بہت سے ساتھیوں سمیت اس نئی جماعت میں شامل ہوگئے۔

جنرل مشرف کے اقتدار کو طوالت بخشنے میں چوہدری برادران کا بہت کردار تھا لیکن2008ء کے الیکشن میں اسی مشرف نے چوہدریوں کیخلاف سازش کی۔ یہی وجہ تھی کہ بعد میں چوہدریوں نے آصف علی زرداری کے ساتھ ملکر جنرل مشرف کو اقتدار سے نکال پھینکا۔ عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ بھٹو اور نواز شریف دونوں فوج کی مدد سے اقتدار میں آئے اور فوجی جرنیلوں نے انہیں اقتدار سے نکالا ۔ عمران خان کو بھی جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید اقتدار میں لائے ۔ 

عمران خان نے باجوہ کو 2019ء میں ایکسٹینشن دیکر اُن کے احسان کا بدلہ اُتار دیا لیکن بعد میں خان اور باجوہ میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ ان اختلافات کے باعث عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اور کچھ عرصہ بعد عمران خان جیل پہنچ گئے پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت ملازمت پوری نہ کر سکا ۔ کوئی قتل ہوا، کوئی پھانسی پر لٹکایا گیا کوئی نااہل قرار دلوایا گیا اور کوئی وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا۔

 ہر وزیر اعظم کو حکومت سے نکالنے کیلئے کسی سابق وزیر اعظم کی مدد سے سازش کی گئی۔ یہ پہلو قابل غور ہے کہ سیاستدان تو سیاستدان کے خلاف سازش کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن جنرل راحیل شریف ہر قیمت پر جنرل پرویز مشرف کا تحفظ کرتا ہے اور اُسے ایک منٹ کیلئے بھی جیل نہیں جانے دیتا۔ سیاستدان بے شک سیاستدانوں کا دفاع نہ کریں اور ایک دوسرے کو جیل میں پھینک کر اپنی انا کی تسکین کرتے رہیں لیکن انہیں آئین پاکستان کا ہر قیمت پر دفاع کرنا چاہئے۔ آج یہ آئین آپ کا اصل محسن ہے ۔ اسی آئین نے پاکستان کو ابھی تک جوڑ رکھا ہے۔ آئین کو کمزورکرنا احسان فراموشی ہے۔ جس آئین کے تحفظ کاحلف اٹھا کر آپ صدر، وزیراعظم، وفاقی وزیر بنتے یا دیگر عہدے حاصل کرتے ہیں اگر اُسی آئین کو آپ کمزور کر دیں گے تو آپ کو کبھی خیر نہیں ملے گی ۔ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر جھوٹا حلف اُٹھانے والے احسان فراموش کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔