17 مارچ ، 2025
سپریم کورٹ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری کیلئے اہل قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کی سماعت کی۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے مؤقف اختیار کیا کہ سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کے مطابق سرکاری ملازم کے بچوں کو نوکریاں ترجیحی بنیادوں پر نہیں دی جا سکتیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2024 کا ہے جبکہ موجودہ کیس اس سے پہلے کا ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوتا، خاتون کو نوکری دے کر آپ نے فارغ کیسے کر دیا؟
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ خاتون کی شادی ہو چکی ہے اور والد کی جگہ نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی۔
جسٹس منصور ولی شاہ نے استفسار کیا یہ کس قانون میں لکھا ہے کہ بیٹی کی شادی ہو جائے تو وہ والد کے انتقال کے بعد نوکری کی اہلیت نہیں رکھتی؟ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خود مختاری سے کوئی تعلق نہیں، شادی کے بعد بھی بیٹا والد کا جانشین ہو سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں؟
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایاکہ کے پی سول سروس ایکٹ کے تحت نوٹیفکیشن کے ذریعے خاتون کو نکالا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اب کیا ایک سیکشن افسر قانون کی خودساختہ تشریح کرے گا؟ خواتین کی معاشی خودمختاری اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق تفصیلی فیصلہ دیں گے۔
سپریم کورٹ نے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کیلئے اہل قرار دے دیا۔
عدالت نے درخواست گزار خاتون زاہدہ پروین کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس نمٹادیا۔