19 مارچ ، 2025
ہم نے کس کس کو ’’غدار‘‘ نہیں کہا فہرست نکال لیں اور تجزیہ کریں کہ ’’غدار‘‘ وہ تھے یا نا سمجھ وہ جو انہیں غیر محبِ وطن پاکستان مخالف کہتے اور پابندیاں لگاتے رہے، یہاں تک کہ ملک ہی دولخت ہو گیا۔
یاد رکھیں جب قومی سیاست اور رہنماؤں پر پابندی لگتی ہے تو وہ قوم پرست سیاست کی بنیاد بنتی ہے اور جب آپ قوم پرست جماعتوں اور لیڈرز کو دیوار سے لگا دیتے ہیں تو وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف لے جاتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بات سابق مشرقی پاکستان کی ہو، کے پی، سندھ یا بلوچستان کی ہدف تنقید پنجاب کی سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ رہی ہے اور آج بھی ہے۔
ملک تو 76 سال سے نازک موڑ سے گزر رہا ہے مگر اس وقت جو صورتحال خیبر پختو نخوا اور بلوچستان میں ہے وہ سنگین تر ہوتی جا رہی ہے اور دونوں صوبوں میں دہشت گردی کے اہداف بھی مختلف ہیں ایک طرف علیحدگی پسندی کی تحریک ہے تو دوسری طرف پاکستان میں اپنے مطلب کا نظام لانے کی خواہش اور کوشش۔
جناب عبد الرحیم ظفر صاحب نے اپنی کتاب ’سنگِ لرزاں‘ بی ایس او تشکیل سے تقسیم تک میں ابتدا میں ایک کمال جملہ لکھا ہے جو ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے تاریخ اُن کو سبق سکھاتی ہے۔ آجکل خان عبدالولی کی ایک 40 سال پرانی تقریر کی ویڈیو بڑی وائرل ہو رہی ہے جو غالباً افغانستان کی پہلی جنگ کے تناظر میں ہے اور میں اِس کا پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں۔ ’’یہ ہتھیار جو افغانستان کیلئے لایا جا رہا ہے وہ وہاں نہیں یہاں استعمال ہو گا‘‘۔ مجھے آج بھی خان صاحب سے 1978ء کی وہ ملاقات یاد ہے جب ہم جامعہ کراچی کےکچھ دوست سوات کے دورے میں اُن سے چار سدہ میں جا کر ملے تھے۔ بعد میں ہمارے شعبہ صحافت کے چیئرمین سعید صاحب مرحوم بڑے ناراض ہوئے تھے کیونکہ گئے تو ہم سوات سیر و تفریح کے لیے تھے مگر صحافت و سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
آج جن حالات کا ہمیں سامنا ہے ولی خان جیسے سیاستدانوں نے، میر غوث بخش بزنجو جیسے معتبر رہنماؤں نے 80ء میں ہی خبردار کر دیا تھا مگر ’’ریاست‘‘ کی نظر میں وہ اُس وقت غیر محبِ وطن اور غدار تھے۔ یہ سلسلہ اُن پالیسیوں کا تسلسل تھا جو قیام پاکستان کے بعد ایک ’نظریاتی سراب‘ کے نام پر بنائی گئیں جن کی ابتدا بنگال مسلم لیگ اور مغربی پاکستان مسلم لیگ کی تقسیم سے ہوئی۔ غالباً اُس وقت طے کر لیا گیا تھا کہ ’’اکثریت‘‘ کو قبول نہیں کیا جا سکتا، چاہے تمام انتخابات میں وہ جیت ہی جائے۔
یہ مینڈیٹ کو نہ ماننے کی ابتدا تھی۔ اب وہ چاہے بائیں بازو کا اتحاد جگتو فرنٹ ہو، عوامی لیگ، پی پی پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) ہو یا پاکستان تحریک انصاف۔ 1954ءکے بعد 1958ء میں الیکشن کا فیصلہ ہو چکا تھا مگر مارشل لا لگا کر سیاسی عمل کو روک دیا گیا، دو ہزار سے زائد سیاستدانوں کو نا اہل قرار دیدیا گیا۔ بائیں بازو کی جماعت پر بھی پابندی لگا دی۔ اعلیٰ عدلیہ کو سہولت کار اور میڈیا کو قابو کر لیا گیا۔ اس سب کے نتائج 1971ء میں بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آئے مگر ہمارے ’’نصاب‘‘ میں آمرانہ ادوار کے فوائد ہی بیان کیے جاتے ہیں۔
ہماری ’’سیاسی اشرافیہ‘‘ پیداوار ہے غیر سیاسی نظام کی، جس کی ابتدا نام نہاد بنیادی جمہوریت کے نظام اور پھر ایوب خان کے بعد جنرل ضیاء کے غیر جماعتی نظام کی بحالی سے ہوئی، ان جماعتوں اور رہنماؤں کا جمہوری رویہ ہو ہی نہیں سکتا۔ پاکستان میں پہلی بار آئین اتفاق رائے سے 1973ء میں بنا مگر اس سے ایک سال پہلے 1972ء میں حکومت کیخلاف ’’بغاوت‘‘ کی گئی جو ناکام ہوئی اور بہت سے فوجی اور ایئر فورس کے افسران کو سزائیں ہوئیں۔ اسی دوران پہلی بار کیمونسٹ رہنما حسن ناصر کی ریاستی حراست میں ہلاکت کے بعد بلوچ رہنما عطا ءاللہ مینگل کے صاحبزادے اسد مینگل کے لاپتہ ہونے کے بعد ہلاکت نے وہ صورتحال پیدا کر دی کہ ’’لاپتہ افراد‘‘ کا مسئلہ ایک بیانیہ بن گیا۔ بلوچستان فوجی آپریشن، صوبائی اسمبلی کو برطرف کرنا، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگانا اور پھر حیدرآباد ٹرائل کا قیام اور مقبول رہنماؤں کو سزائیں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سنگین سیاسی غلطی تھی پس پردہ دباؤ کوئی بھی ہو۔عراقی ایمبسی سے اسلحہ برآمد کرنے کا ڈرامہ۔
1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران جب مذاکرات کا عمل شروع ہوا تو پہلی بار جنرل ضیاء الحق کا کردار سامنے آنے لگا۔ بھٹو صاحب کو کہا گیا ’’نیپ‘‘ پر پابندی اُٹھانے اور حیدرآباد ٹرائل ختم کرنے کی بات نہیں تسلیم کرنی جبکہ پی این اے کے بعض رہنمائوں کو پیغام دیا گیا کہ ٹرائل ختم کرنے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹنا۔
سپریم کورٹ میں حنا جیلانی کیس میں مارشل لا کو خلاف آئین کہنے کے باوجود 1977ءکے مارشل لا کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت جائز قرار دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ایک آمر کے دور میں ہماری سیاسی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔ اگر اکتوبر 1977ء میں الیکشن کرا کے فوج بیرکوں میں واپس چلی جاتی تو آج کا پاکستان عین ممکن ہے مختلف ہوتا۔ ایرانی انقلاب اور پھر افغانستان میں روس کے آنے سے جو جنگ شروع ہوئی ہم اُسکے حصہ دار بن گئے۔
’’جہاد افغانستان‘‘ کے نام پرجنرل ضیاء الحق اور بعد میں جنرل حمید گل کا لگایا ہوا پودا آ ج تناور درخت بن چکا ہے جس کو آج تک ہم جڑ سے نکال کر پھینک نہ سکے اب یہ پودا درخت کی صورت میں ریاست کو کمزور کر رہا ہے اور اُسے سیاسی و مذہبی جماعتوں اور گروپس کی خاموش حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ’’پینگ، پونگ‘‘ کھیلتی رہیں اور اصل میچ کہیں اور ہو رہا تھا اور پھر ایک اور منتخب حکومت کو 12 اکتوبر کو گھر بھیج دیا گیا اور ایک بار پھر منتخب وزیر اعظم کو غدار قرار دیکر عمر قید کی سزا دے دی گئی۔ مگر جنرل پرویز مشرف کی سب سے بڑی غلطی آئین توڑنا تو تھا ہی لیکن جس طرح بلوچستان کو ہینڈل کیا گیا اُس نے صوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس کا سب سے خطرناک پہلو نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد مشرف نے اُس ایکشن کا جیسےدفاع کیا وہ ہمیں آج اس موڑ پر لے آیا ہے کہ واپسی کا راستہ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوا مگر اُس سے پہلے ایک اور منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت۔ بی بی اُس بیانیےکی بھینٹ چڑھ گئیں جو نہ جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہے نہ ہی عورت کی حکمرانی پر۔
2013ء میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک انتہائی سنجیدہ اور مثبت کوشش کی بلوچستان کے مسئلہ کے حل کیلئے۔ صوبے میں اُن کی جماعت کی اکثریت تھی مگر انہوں نے اپنے اتحادی اور بلوچستان کے نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت بنانے کا کہا۔ اتفاق سے میں اُس اجلاس کا عینی گواہ ہوں جس کی بڑی وجہ میر حاصل بزنجو مرحوم تھا جس سے جامعہ کراچی سے تعلق رہا تھا۔ شاید یہ حل بھی قبول نہیں کیا گیا 2016ءمیں میاں صاحب نا اہل،2017ء میں سزا یافتہ اور 2018ءمیں مسلم لیگ کو حکومت بنانے نہیں دی گئی جس کی ابتدا بلوچستان میں مسلم لیگ کے بطن سے ہی بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ چیئرمین سینٹ میں حاصل بزنجو کو ہرانے کیلئے فارمولا ’’فیض یاب‘‘ لایا گیا۔ سینٹ میں اُس کی آخری تقریر سُن لیں۔ (جاری ہے)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔