بلاگ

اسرائیل، بُرے وقت کی تلاش میں!

اسرائیل کا فلسطین، امریکا کا یمن پر قیامت ڈھانا، پاکستان میں دہشتگردی کی خوفناک لہر، ایران کو حالیہ امریکی دھمکی سب کے تانے بانے ملتے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کو نیست و نابود کرنے پر عمل پیرا تو امریکا دنیا کے سب سے بڑے بحری بیڑے (ہیری ٹرومین) سے میزائلوں، F/A-18بمبار فائٹر اور قطر سے B-52 بمبار طیاروں کے ذریعے حوثی علاقوں پر آگ برسا رہا ہے۔ 

صدر ٹرمپ نے جب ایران کو دھمکی آمیز خط لکھا کہ ’’2 ماہ میں نیا نیوکلیئر معاہدہ کرو ورنہ …‘‘ ہٹلر کا مارچ 1938ء میں آسڑیا کو نوٹس سامنے، چڑھائی اور پھر قبضہ، ٹھیک ڈیڑھ سال بعد جنگ عظیم چھڑ چکی تھی۔ امریکی دھمکی پر ایران کا جواب، ’’جو کرنا ہے کر لو‘‘۔ ٹرمپ دھمکی کی وجہ چین روس ایران کے بڑے بحری بیڑوں کیساتھ خلیج اومان ( 40 فیصد تیل تجارت گزرگاہ) ’’ چاہ بہار‘‘ کے نزدیک جنگی بحری مشقوں کے ذریعے براجمان ہونا ہے۔

غزہ کے مکین واپس آکر اُجڑے گھروں میں آباد ہونا ہی چاہتے تھے کہ ایک دن سحری پر اسرائیلی طیاروں نے شدید بمباری کی، آناً فاناً 400 سے زائد بچے، عورتیں شہری شہید، آگ و خون کی ہولی جاری ہے۔ یمنی حوثیوں نے تو خوابیدہ اُمت کا قرض اتارا ہے، آبنائے باب المندب سے گزرنے والے اسرائیلی تجارتی جہازوں اور امریکی جنگی بحری بیڑوں پر کروز میزائلوں ڈرونز سے حملے شروع کر رکھے ہیں تا کہ غزہ پر بمباری بند کرائی جاسکے۔ اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی تو بخوبی اندازہ کہ اسرائیل اور امریکا نے ہر طور ایران کو گھیرنا ہے۔ پاکستان پر نظر کہ بڑے ایجنڈا کا حصہ ہے۔ دونوں ممالک میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا سدِباب مقصود ہے ۔

جملہ معترضہ! عمران سیاست کا بانجھ پن یا نالائقی کہ ایسے نازک موقع پر ذاتی مفاد کو رہنما اصول بنایا، ذاتِ مبارکہ کو مملکت پر ترجیح دے ڈالی ہمیشہ کیلئے بدنامی کمائی۔ وطنی تاریخ میں الیکشن جنوری 1965ء کی دھاندلی اپنی مثال آپ ہے، بدترین ڈکٹیٹر جنرل ایوب نے قائداعظم کی بہن کو جیت سے محروم رکھا جبکہ 90فیصد مشرقی مغربی پاکستان کے عوام دل و جان سے محترمہ کیساتھ تھے۔ 

ستمبر 65 ء میں جب جنگ چھڑی تو محترمہ فاطمہ جناح کی سربراہی میں ساری اپوزیشن قیادت ( بشمول شیخ مجیب ) ایوب خان کیساتھ ایک میز پر بیٹھی تھی۔ ’’عمران نہیں تو پاکستان نہیں‘‘، ایک جاہلانہ نعرہ کہ مملکتیں شخصیات کی مرہون منت نہیں ہوتیں۔ افغانستان چھوڑنے سے پہلے امریکا داعش، TTP اور BLA ایسی دہشت تنظیموں کو توپ و تفنگ گولہ بارود سے لیس کرکے مستحکم کرگیا۔ امریکی بھارتی گٹھ جوڑ ان دہشتگردوں کی پشت پر ہیں ۔ افواجِ پاکستان بھی تیار، عہدہ بَرا ہونے کی صلاحیت سے مالا مال، انشااللہ دشمن منہ کی کھائیں گے۔ 13 مارچ کو چین، روس، ایران نے جب سے ’’چاہ بہار‘‘ کے پاس جنگی مشقیں شروع کیں، اسرائیل اور امریکا بپھر چکے ہیں ۔ خطے میں چین روس بحری طاقت کی موجودگی فوری وجہ نزاع ہے۔ اچنبھے کی بات نہیں ، وطن عزیز میں دہشتگردی ایسے علاقوں میں جہاں چین کے اقتصادی اور تزویراتی مفادات ہیں، دہشتگردوں کا عزم صمیم کہ چین کیلئے پاکستان کو ناقابل استعمال بنانا ہے۔

بحرہند میں دہائیوں سے موجود کرہِ ارضی کا سب سے بڑا امریکی 7th فلیٹ 50 جنگی بحری جہاز، 60 بمبار لڑاکا طیارے، جوہری ہتھیار، درجنوں سب میرین و میزائل و ڈرون سے لیس وقتی طور پر بحرہند سے ہٹا لیا گیا ہے، شاید چین روس کی مشترکہ بحری طاقت کی موجودگی وجہ بنی ہے۔ 

حالیہ امریکی اسرائیلی جارحیت سے بڑی جنگ ناگزیر ہو چکی ہے۔ ایران اور پاکستان پر کڑا وقت ضرور رہنا ہے مگر کچھ بھی نہ بگاڑ پائیں گے۔ 2018 ء نہیں کہ جب ایک پاکستانی وزیر نے اعلامیہ جاری کر دیا، ’’ہم سی پیک دو سال کیلئے بند کر رہے ہیں‘‘۔ پہلی دفعہ چین بنفس نفیس پاکستان میں موجود ہر ممکنہ خطرے سے نبٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ 

دہشتگردی کے باوجود اپنے تمام پروجیکٹس پر تندہی اور زور و شور سے کام جاری رکھے ہے۔ کراچی تا خیبر چینی باشندوں کی ریل پیل ہے۔ ہزاروں سالہ تاریخ سامنے، اسرائیلی سلطنت کا قیام بربادی پر منتج ہوتا ہے۔ اسرائیلوں نے کئی مواقع پر طاقتور حکومتیں ضرور قائم کیں ، دیرپا ثابت نہ ہوئیں۔ تاریخ کے جھروکے سے چند مثالیں ، 722BC میں آسوری فتحنے کروفر سے قائم یہود سلطنت کو جڑ سے اُکھاڑ باہر پھینکا ،مکیں دربدرہو گئے ۔ 586BC میں بابلوائی (Babylonian) ایمپائر نے یروشلم کو تباہ و برباد کرکے یہودیوں کو قید اور پھر مشہور زمانہ بابل بدر کیا ۔ 539BC میں فارسی شہنشاہ سائرس اعظم نے جب بابل فتح کیا تو پہلے یہودیوں کو وہاں سے نکالا تو دوبارہ فلسطین ٹھکانا بنا ۔

 332BC یونانی جنگجو سکندر اعظم نے جب فارس فتح کیا تو یہودیوں کو یونانی مذہب و تہذیب کا پابند بناڈالا۔ 160BC میں یہود نے یونانی مذہب اور تہذیب کیخلاف بغاوت کی اور سو سال تک حکومت قائم رکھی۔ رومن ایمپائر نے یہ علاقے قبضے میں لئے اور 60BC میں یہود حکومت ختم کی اور سب کو غلام بنایا۔ 70عیسوی میں یہودیوں نے رومن ایمپائر کیخلاف بغاوت کی تو چند سال اندر بغاوت کچلی ڈالی، یروشلم کا پھر ملبہ بنا اور یہودیوں کا وسیع پیمانہ پر قتل عام ہوا۔ سن 100 ء سے سن 400 ء تک رومن نے یہود کا عرصہ حیات تنگ رکھا، رومن ایمپائر کے ظلم سے بچنے کیلئے جہاں کہیں اماں ملی، ٹولیوں ٹکڑوں میں بکھر گئے۔

سن 400ء میں رومن ایمپائر، بازنطینی عیسائی سلطنت میں تبدیل ہوئی۔ بازنطینیوں نے یہودیوں پر ظلم و ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھا ۔ اگلے 1400 سال 18ویں صدی تک یہودیوں کا قتل عام، نسل کشی اور قید و بند عیسائیوں کا مذہبی فریضہ و وطیرہ بنا رہا۔ مشرقی مغربی یورپ، ہسپانوی، پرتگالی سب نے یہودیوں کی نسل کشی میں حصہ بقدر جثہ ڈالا۔ بیسویں صدی میں ہٹلر کا ہولوکاسٹ کل کی بات ہے۔

 کاش ! اسرائیلی اپنی ہی لکھی تاریخ سے سبق اَزبر رکھتے۔ وقتی طور پر فلسطین، لبنان، عراق، یمن، لیبیا، شام کے بعد ممکنہ طور پر ایران پاکستان بھی کچھ عرصہ کشت و خون سے گزریں۔ حوصلہ افزا اتنا کہ دنیا اس وقت امریکا اور اسرائیل کیخلاف متحد ہے کہ اسرائیل کا وجود وجہ نزاع ہے جبکہ روس چین خطہ میں موجود ہیں۔ 

کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ کیا تاریخ اسرائیل دہرانے کو، کیا پھر ایک بار پھر نسل اسرائیل بمع سہولت کار مٹنے کو۔ اگر ایسا ہوا تو اسکا سہرا خراساں سے اٹھنے والے کالی پگڑی والوں کے سر باندھنا ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔