21 مارچ ، 2025
کیا آپ کبھی سوچتے ہیں کہ جب آپ ننھے بچے تھے تو کیسے تھے مگر جتنی بھی کوشش کرلیں کوئی بھی تفصیل یاد نہیں آتی؟
تو ایسا صرف آپ کے ساتھ ہی نہیں ہوتا درحقیقت دنیا بھر میں کوئی بھی فرد بچپن کی یادوں تک رسائی حاصل نہیں کرپاتا۔
اب اس سوال کا ممکنہ جواب سامنے آیا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
جرنل سائنس میں شائع تحقیق میں 4 ماہ سے 25 ماہ کے 26 بچوں کو شامل کیا گیا تھا اور ان کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔
ایک گروپ میں 12 ماہ سے کم عمر جبکہ دوسرے میں 12 ماہ سے زائد عمر کے بچوں کو شامل کیا گیا۔
تحقیق کے دوران ان بچوں کو ایف ایم آر آئی مشین میں رکھا گیا اور انہیں مختلف تصاویر دکھائی گئیں، انہیں ہر تصویر 2 سیکنڈ کے لیے دکھائی گئی۔
محققین کا مقصد بچوں کے دماغی حصے ہپو کیمپس کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرنا تھا۔
دماغ کا یہ حصہ جذبات، یادداشت اور اعصابی نظام سے جڑا ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق ہپو کیمپس دماغ کی گہرائی میں چھپا اسٹرکچر ہے جو کسی روایتی طریقہ کار سے نظر نہیں آتا، تو اس کے لیے ہم نے ایم آر آئی مشین کے اندر منفرد طریقہ کار استعمال کیا۔
نتائج سے انکشاف ہوا کہ زیادہ عمر کے بچوں میں یہ دماغی حصہ اس وقت زیادہ متحرک ہوتا ہے جب وہ یادوں کو جمع کر رہا ہوتا ہے جبکہ یادداشت پر مبنی فیصلہ سازی اور شناخت میں مدد فراہم کرنے والا دماغی حصہ orbitofrontal cortex بھی سرگرم ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے یہ جانا کہ بالغ افراد جو یادیں جمع کرتے اور دہراتے ہیں، وہ ہمارے تجربات سے جڑی ہوتی ہیں، مگر ننھے بچوں میں ہپو کیمپس ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ انہیں غیر ضروری تصور کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی یہ ت واضح نہیں کہ 12 ماہ سے زائد عمر کے بچوں میں یادوں کے جمع ہونے کا عمل زیادہ بہتر کیوں ہوتا ہے مگر یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ اس عمر میں متعدد لسانی اور حیاتیاتی عمل تیز ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ہم بچپن کی یادیں اس لیے نہیں یاد کر پاتے کیونکہ ہپوکیمپس اس زمانے کی یادوں کو درست طریقے سے موصول نہیں کر پاتا کیونکہ وہ یادیں اس زمانے کے تجربات کے طور پر کہیں ذخیرہ ہو جاتی ہیں جن کو ہمارا دماغ موجودہ زندگی سے متعلق تصور نہیں کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہم بالغ ہونے کے بعد بچپن کی یادوں کو دہرانے میں ناکام رہتے ہیں مگر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہم اس زمانے کے تجربات سے کافی کچھ سیکھتے ہیں۔