22 مارچ ، 2025
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سیاسی لوگ آپس میں ویسے ہی لڑتے ہیں جن کو اقتدار ملتا ہے ان کو بھی مینج کیا جاتا ہے، وفاق کے ساتھ صوبوں میں بھی الیکشن کو مینج کیا گیا، خیبرپختونخوا میں بھی مینڈیٹ عوامی نہیں یہ بھی بنایا گیا مینڈیٹ ہے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ دہشتگردی کے حوالے سے ریاست کی غلطیوں کا بڑا عمل دخل ہے، افغان جنگ کے بعد مہاجرین ایران کی طرف بھی گئے اور ایران نے افغان مہاجرین کو تو جگہ دی لیکن جنگ کے لیے بیس کیمپ نہیں بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں جنگ کے لیے بیس کیمپ بنایا، جب لفظ جہاد استعمال ہوگا تو مذہبی لوگ ہی اس طرف جائیں گے، ریاست لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکی کہ روس افغانستان آیا تو جہاد اور امریکا آیا تو جہاد نہیں، تضاد تب آیا جب پرویز مشرف نے امریکا کو سپورٹ کیا۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں اس وقت مسلکی تنازعات اور جنگیں نہیں ہیں، ہمارے علما کرام شہید ہوئے ان کو بھی شہید کہتا رہوں اور قاتلوں کو بھی تو ایسا نہیں ہوسکتا، افغانستان میں افغان علما نے فتویٰ جاری کیا کہ جہاد اپنے انجام کو پہنچ چکا، اب کوئی جنگ کرے گا تو وہ جنگ ہوگی جہاد نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 25 ہزار علما پشاوراور 10 ہزار علما بلوچستان میں جمع ہوئے، 35 ہزار علما نے قرار داد پاس کی کہ ہم آئین پاکستان کے ساتھ ہیں، تمام مکاتب فکر نے لاہور میں اے پی سی کی اور اتفاق کیا کہ اکابرین کے متفقات کو دوبارہ زیر بحث نہیں لایا جائے گا اور نظام کے اصلاح کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھاکہ وفاق المدارس عربیہ نے ڈیڑھ سو علما کو بلایا جنھوں نے ملک میں اسلحہ اٹھا کر لڑنے کو غیرشرعی قرار دیا، ہم اپنے ملک کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں، داعش ہو یا کوئی اور تنظیم ان کے ساتھ اتفاق ہوتا تو کیا میں پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوتا۔
ان کا کہنا تھاکہ افغانستان نے دعوت دی تو حکومت اور وزارت خارجہ کو اعتماد میں لیا، افغانستان میں ایک ہفتہ گزارا اور تمام معاملات پر بات کی اور نتائج حاصل کیے، ان نتائج کو یہاں آکر رپورٹ کیا اس رپورٹ کو تسلیم کیا گیا خراج تحسین پیش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکیوں کو اڈے دیے اور دوسری طرف افغانستان سے آنے والوں کو یہاں کور دے رہے تھے، ہمارے تیس چالیس ہزار لوگ وہاں گئے اور ان کے ہمراہ بیس سال تک لڑے، اب کیا ان سے بندوقیں لے کر آپ کے حوالے کردیں ظاہر ہے ان کے لیے بھی مشکلات ہیں، کچھ چیزوں پراتفاق رائے حاصل کیا انھوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا مؤقف ایک ہی ہے، افغانستان نے کہا کہ آپ عجلت اور ہم مہلت کا تقاضا کررہے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہمیں ان چیزوں کے لیے وقت چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ اتفاق رائے ہوا تھا مجھے علم نہیں کہ ہم نے آج معاملہ کیوں بگاڑ دیا، ہم افغانستان کی جنگ کو نہ روئیں تواچھا ہے، گوادر سے لیکر چترال باجوڑ تک مسئلہ ہے، افغانستان سے متعلق امید رکھتا ہوں کہ اس پر مزید سوچنے کی گنجائش ہے، جنگ نہ افغانستان اور نہ پاکستان کے لیے مفید سمجھتا ہوں، اگر ہم جنگ کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو قدم روک لینا چاہیے اور جامع حکمت عملی کی طرف جانا چاہیے، حکمرانوں کو دعوت دیتا ہوں تھوڑا سا ان معاملات پر سوچیں تمام جماعتوں کو بلالیں۔
الیکشن کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہناتھاکہ مجھے الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کو تسلیم کرنے والی جماعتوں سے اختلاف ہوا، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں صلاحیت کیوں نہیں جو کامیابیاں حاصل کیں ان کو فالو کرسکیں، ہم مسلم لیگ ن کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو سینیئر تسلیم کیا جاتا ہے، توقع رکھی جاتی ہے کہ بڑے ہونے کے ناطے وہ ایسا کردار ادا کریں کہ مسائل حل ہوں، نوازشریف کا ہمیشہ احترام کیا ہے ، وہ بالکل ہی سین سے غائب ہوگئے ہیں، سین میں بظاہر نوازشریف کا کوئی بڑا کردار سامنے نظر نہیں آرہا ہے، معاملات بگڑے ہوئے ہیں ، الیکشن خراب ہوگئے، حکومت پر اعتماد نہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ جمہوریت شکست کھائے گی تو انتہاپسندی اور شدت پسندی کامیاب ہوگی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلق اعتدال کی طرف آرہا ہے، رویوں میں نرمی آرہی ہے ایک دوسرے کو سمجھے کے مواقع مل رہے ہیں، اچھی سمت ہے جس کی طرف سفر ہورہا ہے، میں ان رویوں کو ہمیشہ بہتر رکھنے کے لیے بات کررہا ہوں، یہ نہیں کہ محدود وقت کے لیے دوستی کروں اور آگے جاکر کہوں کہ مطلب پورا ہوگیا اب ضرورت نہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ بانی پی ٹی آئی کا کردار سیاست میں کیا ہوگا یہ انھوں نے خود طے کرنا ہے، سیاست میں گنجائش رکھنی چاہیے کہ ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور بات کرسکیں، عید کے بعد جے یو آئی نے جنرل کونسل کا اجلاس بلایا ہے، جنرل کونسل اجلاس میں مستقبل کی پالیسیاں طے ہوں گی، سیاسی لوگ آپس میں ویسے ہی لڑتے ہیں جن کو اقتدار ملتا ہے ان کو بھی مینیج کیا جاتا ہے، وفاق کے ساتھ صوبوں میں بھی الیکشن کو منیج کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بھی مینڈیٹ عوامی نہیں یہ بھی بنائی گئی مینڈیٹ ہے، ہم دونوں اب اپوزیشن میں ہیں پی ٹی آئی کا بھی الیکشن کاعدم اعتماد ہے، جب ہم الیکشن پر اعتراض کررہے تھے تو سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ہمارے ساتھ اتحاد میں بھی تھی اب وہی پوزیشن پی ٹی آئی کی ہے۔