24 مارچ ، 2025
ایک اور صحافی گرفتار کرلیا گیا۔ کراچی میں افطار سے کچھ دیر پہلے ایف آئی اے نے فرحان ملک کو گرفتار کیا۔ میں فرحان ملک کو ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ آج کل وہ ایک ڈیجیٹل چینل ’’رفتار‘‘ سے وابستہ ہیں۔
شہزاد اقبال نے بتایا کہ اس سے قبل وہ کئی اہم ٹی وی چینلز اور اخبارات کے لئے کام کر چکے ہیں۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے انہیں خود بلایا۔ وہ ایک ذمہ دار شہری کے طور پر خود چل کر ایف آئی اے کے پاس گئے۔ ایف آئی اے والوں نے انہیں کافی دیر تک بٹھائے رکھا اور جب افطار کا وقت قریب آیا تو گرفتار کرلیا۔ ان کے وکیل نے ایف آئی آر مانگی تو ایف آئی آر دینے سے انکار کردیا گیا۔
ایف آئی اے کو ہر دور حکومت میں سیاسی مخالفین اور صحافیوں کی زبان بندی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر دور میں کسی نہ کسی فرحان ملک کو گرفتار کرکے باقی صحافیوں کو پیغام دیا جاتا ہے کہ نظریں جھکا کر چلو۔ کچھ صحافی ہر دور حکومت میں زیر عتاب رہتےہیں۔ جنرل پرویز مشرف بھی ان پر پابندی لگاتا ہے اور عمران خان کے دور میں بھی ان پر پابندی لگتی ہے۔
وہ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی نوکری سے نکالے جاتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی نوکری سے نکالے جاتے ہیں۔ کچھ صحافی ایسے ہوتے ہیں جو ہر دور میں ’’دربار‘‘ کے قریب نظر آتے ہیں۔ ایک تیسری قسم ایسے صحافیوں کی ہے جو مخصوص سیاسی جماعتوں کا اثاثہ بن جاتے ہیں۔ جب بھی ان کی محبوب سیاسی جماعت یا محبوب لیڈر حکومت میں آتا ہے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ جب ان کی ناپسندیدہ جماعت کی حکومت آتی ہے تو وہ جمہوریت اور آزادی صحافت کے مجاہد بن جاتے ہیں۔
فرحان ملک ان صحافیوں میں شامل ہیں جو ہر حکومت کی نظروں میں کھٹکتے ہیں کیونکہ وہ صحافت کو سیڑھی بنا کر کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ اس قسم کے صحافیوں کے لئے پاکستان میں صحافت کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ایک طرف تو ایف آئی اے، پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کا دباؤ اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے کرائے کے غنڈے دستیاب ہیں۔
یہ کرائے کے غنڈے حب الوطنی کے نام پر حکومت کے ناقدین کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔ شرم و حیا اور غیرت سے ’’آزاد‘‘ کرائے کے ان سرکاری غنڈوں کا کام صرف یہ ہے کہ چند ہزار روپوں کی خاطر پاکستان کے آئین و قانون کی بالادستی کا مطالبہ کرنے والوں کو غداروں کی فہرست میں شامل کرتے جاؤ۔ ان غنڈوں کی اصل طاقت ان کی قابلیت نہیں بلکہ طاقت کے مراکز سے قربت ان کی اصل طاقت ہوتی ہے۔
ان مراکز میں تبدیلیوں سے ان غنڈوں کی طاقت بھی کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافی ان کرائے کے غنڈوں کا خاص ٹارگٹ ہوتے ہیں کیونکہ ناقدین کے خلاف گالی گلوچ سے ہی ان کا دھندہ چلتا ہے۔ ہر حکومت پر بلاجوازتنقید تعمیری صحافت نہیں ہے۔ حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی اور اچھے کاموں کی تعریف ہی اصل صحافت ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ اکثر سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ حکومتوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں پر صدقے واری جاتے ہیں۔
جب یہی سیاستدان حکومت میں آتے ہیں تو تنقید کرنے والے صحافی انہیں ملک دشمن نظر آنے لگتے ہیں۔ کل کی بات ہے ایک وزیر صاحب پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے ہر حکومت پر تنقید اور ہر حکومت کے تنخواہ دار صحافیوں سے گالیاں سننے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ ہم نے ان سے بڑی عاجزی کے ساتھ پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ جب عمران خان کی حکومت نے پیکا کا قانون ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا تو آپ نے اس کی مخالفت کی تھی؟
وزیر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ جی بالکل ہماری پوری پارٹی پیکا آرڈیننس کے خلاف تھی۔ میں نے پوچھا کہ جب ہم نے پیکا آرڈیننس کواسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو آپ کی پارٹی بھی ہمارے ساتھ فریق بن گئی ؟ انہوں نے دوبارہ اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے پوچھا کہ اب آپ کی حکومت ہے آپ اسی پیکا قانون کو مزید خوفناک بنا کر بغیر بحث کے قومی اسمبلی سے منظور کرالیں تو میں کیسے آپ کی تائید کروں’ جو کام عمران خان کے دور میں غلط تھا وہ آپ کے دور میں ٹھیک کیسے ہوگیا؟
میں نے وزیر صاحب سے عرض کیاکہ ہمیں ہر حکومت سے لڑنے کا کوئی شوق نہیں۔ دربار کی قربت حاصل کرنا اور حکمران کا منظور نظر بننا بہت آسان ہے لیکن صحافت کی خاطر اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو حکومت کے خوشامدیوں کا ٹارگٹ بنانا ا یک مشکل کام ہے۔ یہ مشکل کام آج سے نہیں بہت زمانوں سے ہو رہا ہے۔
ہمارے بزرگ حسین نقی صاحب اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے حسین نقی کے تجربات اور مشاہدات کو ’’جرأت انکار‘‘ کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ حسین نقی پاکستان کے ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جن کی ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان سمیت اس زمانے کے کئی اہم سیاستدانوں سے دوستی تھی۔ نقی صاحب 1971ء کے فوجی آپریشن سے قبل ڈھاکہ میں بھٹو اور مجیب کے مذاکرات کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے دونوں کو آپس میں مفاہمت کا مشورہ دیا۔ مفاہمت نہ ہو سکی اور فوجی آپریشن ہوگیا۔ پاکستان ٹوٹ گیا۔ حسین نقی نے اپنے ویکلی ’’پنجاب پنچ‘‘ میں بھٹو حکومت پر تنقید شروع کردی۔ بھٹو حکومت نے 1972ء میں اس اخبار پر پابندی لگا دی۔ ’’پنجاب پنچ‘‘ کے علاوہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی بھی بند کر دیئے گئے۔
حسین نقی، الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمان شامی کو گرفتار کرلیا گیا۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو حسین نقی کے لئے آمر کا درباری بننا بڑا ہی آسان تھا لیکن انہوں نے جنرل ضیاء کی آئین شکنی پر تنقید کی تو گرفتار کرکے شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانے میں قید کردیئے گئے۔ کہاں گیا وہ جنرل ضیاء الحق؟ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔
ہر حکومت کے ساتھ ہی اس کا خوشامدی ٹولہ اور کرائے کے غنڈے بھی قصہ ماضی بن جاتے ہیں لیکن حسین نقی کی جرأت انکار قائم رہتی ہے۔ شہباز شریف آج وزیر اعظم ہیں انکی حکومت کبھی اسد طور، کبھی مطیع اللہ جان اور کبھی فرحان ملک کو گرفتارکرتی ہے۔ کل کویہ حکومت ماضی کا قصہ بن جائے گی۔ شہباز شریف اپوزیشن میں ہوں گے اور فرحان ملک جیسے صحافیوں کی جرأت انکار کو خراج تحسین پیش کرتے نظر آئیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔