11 اپریل ، 2025
بلاشبہ! بلا شرکت غیرے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت بیچارگی کی زد میں ہے۔
بھائی سعید اللہ خان کا نوحہ پہلے لکھنا ہے۔ بھرپور زندگی کی آخری سانسوں کے لمحات کا کرب مجھ پر نقش، شومئی قسمت کہ انکے پہلو میں تھا۔ سعید اللہ خان ہمارے وسیع و عریض کنبہ کے بنیادی ستون اور ایک افسانوی شخصیت تھے۔ 77سالہ زندگی اپنی مرضی، منشا اور شرائط پر بسر کر ڈالی۔
عزیز و اقارب، بڑے چھوٹے بلاتفریق سب کے معاملات و معمولات کو اپنے زیرنگیں رکھا۔ دوست احباب، عزیز و اقارب دلجمعی اور پابندی سے انکی عقیدت، احترام، ڈر اور تقدس میں کورنش بجا لاتے۔ انکی عقل و دانش، عزم بالجزم اور فیصلوں کے سامنے باجماعت برضا و رغبت ڈھیر رہنے میں سکون و عافیت ڈھونڈتے تھے۔
موت برحق، موت کے سامنے اپنے مضبوط طاقتور بھائی کو منکسر المزاجی سے اطاعت گزاری کرتے دیکھا۔ پہلی دفعہ عاجزی کیساتھ بے دست و پانظر آئے۔ آخری تین گھنٹے کی رفاقت ایک جانکاہ تجربہ تھا۔ پہلو میں سورہ یٰسین اور بآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھتا تو کلمہ کی گونج پر آنکھیں پھاڑے مجھے گھورتے، بولنے سے قاصر، کلمہ پر آنسوؤں کا سیلِ رواں کہ تھمنے میں نہ آتا۔ اپنی زندگی میں کبھی آنکھ تَر نہ دیکھی تھی۔ والدین اور چھوٹا بھائی نجیب اللہ خان تینوں کی اموات انکی گود میں ہوئیں۔
خاندان آہ وبکا کی گرفت میں، بھائی کی آنکھ نمی سے محروم تھی۔ حسان خان کی گرفتاری کا سنا تو پہلی دفعہ آنکھیں تَر ہونے کے قریب، کبیدگی پر ایسا ضبط کہ محسوس نہ ہونے دیا۔ پہلی دفعہ آنسوؤں کا دلخراش منظر دیکھا نہ گیا، میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔
آہنی اعصاب، ناقابل تسخیر عزم، غیر متزلزل خود اعتمادی اور بے مثال استقلال، چار عناصر نے سعید اللہ خان کو ایک غیر معمولی اور منفرد شخصیت بنائے رکھا۔ موت ایک اٹل حقیقت، مضبوط و طاقتور کو بھی پچھاڑ دیتی ہے۔ آج اپنے آپ سے منوانا ہے کہ بھائی ہمیں چھوڑ گئے، اگرچہ دل ماننے کو تیار نہ دماغ سمجھنے پر آمادہ۔ پیارے بھائی! اللہ تعالیٰ آپکا سفر آخرت آسان کرے اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے (آمین )۔
تحریک انصاف توڑ پھوڑ کے حتمی مراحل میں، اپنے گندے کپڑے تندہی سے بیچ چوراہے خشوع و خضوع سے دھونے میں مصروف ہے۔ ملکی سطح پر PTI قیادت کے جتنے نمایاں نام، پارٹی میں اتنے ہی تنازعات اور اختلافات، ہر آدمی دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ گردانتا ہے۔ عمران کی غیر معمولی مقبولیت اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کی مرہون منت، بلاشبہ سوشل میڈیا نے چار چاند لگائے۔
سوشل میڈیا کے جتنے کرتا دھرتا (خصوصاً یوٹیوبرز) باجماعت اسٹیبلشمنٹ کے عنایت کردہ ہیں۔ عمران خان کی نئی نویلی مقبولیت پر لاکھوں ناظرین، ڈالروں کی بارش نے سب کو بطل حریت بننے پر مجبور رکھا۔ سوشل میڈیا ہینڈلرز کی عمران خان کی جیل میں چاندی ہے، سوشل میڈیا مفاہمت میں آڑے ہے۔ اگر عمران خان مفاہمتی سیاست اپناتا ہے تو سوشل میڈیا کو عمران خان حمایت یا مخالفت، دونوں صورتوں میں مالی دیوالیہ رہنا ہے۔ مخاصمت میں انکا روزگار ہے۔
اگرچہ مفاہمتی عمل 3سال سے زور و شور سے جاری ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے مفاہمتی عمل کو DE-JURE قیادت نے آگے بڑھایا۔ خان صاحب کی پشت پناہی اور اصل اشیر باد بھی انہی لوگوں کو حاصل ہے۔ دوسری طرف DE-FECTO قیادت اور لواحقین کا گروپ متحرک تاکہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ کیلئے استعمال کیا جا سکے۔ خان صاحب بنفس نفیس پچھلے تین سال سے دباؤ اور مفاہمت دونوں کے توازن میں خرچ ہو چکے ہیں۔
ستمبر 2022میں عمران خان نے بذریعہ صدر عارف علوی جنرل باجوہ سے 2ملاقاتیں کیں۔ زباں زدِ خاص و عام کہ ان ملاقاتوں میں جنرل باجوہ کا رویہ توہین آمیز تھا جبکہ سامنے بیٹھے عمران خان کسمپرسی کی تصویر تھے۔ منکسر المزاجی کا عالم، جنرل باجوہ کو غیرمعینہ مدت توسیع دینے کا عندیہ دے ڈالا۔
23اکتوبر کو صدر علوی سے صدر ہاؤس میں میری خواہش پر تفصیلی ملاقات ہوئی۔ گزارش لیکر گیا کہ وطن کی فکر نے گھائل کر رکھا ہے۔ صدر محترم! جنرل عاصم منیر، نواز شریف اور عمران خان کو ایک کمرے میں اکٹھا بٹھائیں۔ تینوں کو ذات کو منہا رکھنے کی ترغیب دیں۔ خدا کے واسطے وطن عزیز کو سیاسی عدم استحکام کے گرداب سے نکالیں۔ گفتگو کی تفصیل نقل کرنا سوئے ادب ہوگا۔ صدر صاحب کا میری آہ و بکا پر دل ضرور پسیجا مگر میری تجویز کے سامنے بے بس نظر آئے کہ جنرل صاحب اپنے آپکو سیاسی عمل سے دور رکھتے ہیں۔
پوچھنا بنتا ہے کہ باوقار بااصول عمران خان ’’آپ ستمبر 2022میں جنرل باجوہ سے کیوں ملے؟‘‘ کیا بچوں کے رشتوں کا مشورہ لینا تھا، یقیناً آپ مفاہمت کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ آج جو مفاہمتی عمل جاری ہے اسی پس منظر میں ہی ہے اور اسکا سہرا عمران خان کے سر پر ہے۔
ماننے میں عار نہیں کہ آج PTI قیادت اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر ہے تو عمران خان کی ذاتی پیشکش ہے۔ بیرسٹر گوہر، علی امین، بیرسٹر سیف، عمر ایوب، وقاص اکرم وغیرہ کی تعیناتی عمران خان نے ہی اپنے دست مبارک سے کی ہے تاکہ مفاہمتی عمل کیلئے سہولت کاری کریں۔
گوہر خان، علی امین، اعظم سواتی، عمر ایوب، وقاص اکرم پر مفاہمتی کی تہمت ناحق لگانا یا انکے خلاف دشنام طرازی کرنا کہ جیسے اس عمل کے موجد یہ لوگ ہیں، سراسر زیادتی ہے۔ عمران خان صاحب! آپکا وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنا آپ کیلئے مزید خرابی اور سیاست کو بند گلی میں دھکیل چکا۔ عمران خان کا حقی سچی اصلی ایجنڈا مفاہمتی گروپ کے پاس ہے۔ دوسری طرف بہنیں، سلمان راجہ اور اس قبیل کے درجنوں دیگر ورکرز فقط خون گرم رکھنے کیلئے زیر استعمال ہیں۔ البتہ! بیگم صاحبہ کو فیصلوں میں خصوصی مقام یقیناً حاصل ہے۔ خاطر جمع! خان صاحب نے چُن چُن کر پارٹی عہدے ایسوں کو دیئے ہی اس لئے کہ مفاہمتی عمل کو پروان چڑھائیں۔ نتیجتاً پارٹی ہر سطح پر ہر مد میں اسٹیبلشمنٹ کی گرفت میں، اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر بلکہ مکمل کنٹرول میں ہے۔
تحریک انصاف کی حالیہ افراط و تفریط سے چند ہفتے پہلے امکان تھا کہ مفاہمتی معاہدہ طے پا جائیگا۔ عمران خان کی خام خیالی کہ اسٹیبلشمنٹ بوجوہ سوشل میڈیا دباؤ، زیادہ رعایت دے گی، بنا بنایا کھیل بگڑ چکا ہے۔ اعظم سواتی سمیت آج ہر مفاہمتی ٹیم ممبر فرسٹریشن میں بیچ چوراہے بھانڈہ پھوڑ رہا ہے۔ جبکہ مفاہمتی عمل فی الحال قصہ پارینہ بن چکا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ مخالف گروپ کا سوشل میڈیا کو اُکسانا اور پھر سوشل میڈیا کا مفاہمتی گروپ پر بپھرنا، جلتی پر تیل کا کام کر گیا۔ بدقسمتی سے عمران خان کے مسائل و ابتلا کا اصل آغاز بھی اب ہوا چاہتا ہے۔ سیاسی حکمت عملی میں یکسر بانجھ عمران خان مایوسی میں اپنی ہی پارٹی کی توڑ پھوڑ کے عمل کو مزید ہوا دیں گے۔ تحریک انصاف میں انارکی طرہ امتیاز رہے گی۔
سانحہ ہی فیڈریشن کی مقبول بڑی جماعت اپنے ہی لیڈر کی نااہلی اور نالائقی بنا گھمبیر بحران کی زد میں ہے۔ پارٹی وسائل، طاقت، مقبولیت سب ایک دوسرے کو زیر کرنے میں صرف ہو رہے ہیں۔ خدشہ کہ اس کھینچا تانی میں پارٹی خرچ نہ ہو جائے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔