Time 13 مئی ، 2025
بلاگ

سیاست کی اندھی محبت!!

شہرہ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئرنے صدیوں پہلے کہا تھا ’’محبت اندھی ہوتی ہے اور عاشق کو ان جنونی حرکات کا احساس تک نہیں ہوتاجو وہ محبت میں کر جاتے ہیں ‘‘ تضادستان کی سیاست کی محبت تو سراسر اندھی ہے۔

 ہم اپنے پسندیدہ سیاست دان کو خداکانائب بنا دیتے ہیں اسکی غلطیوں پر پردہ ڈالتے ہیں حامی اندھی محبت میں اسے اوتار بنا کر اسکی پوجا شروع کر دیتے ہیں ان جنونی عاشقوں کی نظر میں ان کے محبوب سیاست دان پر تنقید کرنے والے سب لفافی، غدار،نونی یا پھر فوج کے ایجنٹ ہیں جبکہ یہ جنونی عاشق اپنے محبوب کو اس اعلیٰ اور ارفع مقام پر بٹھا دیتے ہیں کہ اس سیاست دان کو زمینی حقائق کا نہ ادراک ہوتا ہے اور نہ وہ انہیں سمجھ پاتا ہے ۔

تضادستانی سیاست کا کپتان اس مثال پر پوری طرح فٹ بیٹھتا ہے اس کے عاشقوں کی اندھی محبت نے اسے چوم چوم کر مار دیا ہے۔ ان عاشقوں کا حال یہ ہے کہ میں جس سے پیار کرتا ہوں اسے مار دیتا ہوں یہ نام نہاد عاشق، یہ جنونی فدائین عقل سے نہ کام لیتے ہیں اور نہ کپتان کو عقل سے کام لینے دیتے ہیں۔

یوٹیوبر ہوں یا نام نہاد باغی یہ کپتان کی سوچوں کو یرغمال بنا چکے ہیں،  یہ ایک بہت بڑا سیاسی المیہ ہے کہ خان کے بظاہر چاہنے والوں نے اسے انتہا پسندی اور عظمت کے اس تخت پر بٹھا دیا ہے جس کا واحد راستہ تختے کی طرف جاتا ہے حالانکہ اگر عقل و شعور کو بروئے کار لایا جاتا تو عظمت کے تخت سے وہ اقتدار کے تخت پر بہت جلدی متمکن ہو سکتا تھا ۔

اندھی محبت کرنے والوں کے اوتار کو حالیہ پاک بھارت کشمکش میں ایک سنہری موقع ملا جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنے سیاسی مخالف شریفوں کو ناک آئوٹ کروا سکتےتھے،  جنگ سے ایک دن پہلے ایک اہم ترین حکومتی ذمہ دار نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو پیغام دیا کہ اگر تحریک انصاف شامل ہونے کی حامی بھرے تو حکومت اور مقتدرہ آل پارٹیز کانفرنس کا فوری اہتمام کرسکتے ہیں، اس کانفرنس سے پاکستان کی سیاسی قیادت کے متحد ہونے اور کپتان و مقتدرہ کے درمیان رابطے بحال ہونے کا پیغام جائے گا۔

 تحریک انصاف کی قیادت نے کپتان سے جیل میں ملاقات کی اور مقتدرہ قوتوں کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی،  تحریک انصاف کی جیل سے باہر بیٹھی قیادت نے کپتان کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن جیل میں بیٹھے چیتے نے صاف انکارکردیا اور یوں نہ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا اور نہ ہی ماضی کے وزیراعظم کی دوبارہ سے کنگ بننے کی راہ ہموار ہوسکی۔

 یوں قومی اتحاد کا سنہری موقع بھی ضائع ہوا خان کی سلاخیں نرم ہونے اور کھلنے کا امکان بھی جاتا رہا اور سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا کہ تحریک انصاف کا فوج اور جنرل مخالف بیانیہ بری طرح پٹ گیا تحریک انصاف کے انکار نے نہ صرف خود اپنی مقبولیت کو نقصان پہنچایا بلکہ اہل سیاست کی مجموعی اہمیت کو بھی متاثر کیا،  فوج نے مجموعی سیاسی قیادت کے بغیر جنگ لڑکر اور پھر فتح کے ڈنکے بجا کر اہل سیاست حتیٰ کہ موجودہ شہباز شریف حکومت کو بھی وقتی طور پر غیر متعلق کردیا اس جنگ کے اکیلے فاتح جنرل عاصم منیر ہیں جو وقتی طور پر عوامی مقبولیت کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئے ہیں جس پر کبھی کپتان خان کوئی جنگ لڑے بغیر فائز ہوا کرتے تھے سیاست اور جمہوریت کو لازماً فوجی فتح نے دھندلا دیا ہے ۔

اندھی محبت سیاست میں ہو تو اندھیری گلیوں میں لے جاتی ہے مگر مذہبی اور رومانوی محبت کا ایک دوسرا اور متضاد نظریہ علامہ اقبال نے پیش کیا ہے ؎

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

مذہبی عقیدت اور رومانوی تعلق میں تو بے خطر کودا جا سکتا ہے جبکہ سیاست میں منطق، دلیل اور عقل سے کام لیا جاتا ہے سیاست حقائق کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے جبکہ اندھا عشق اور محبت ،رومانس اور تصورات کے دائرے میں آتے ہیں،  پی ٹی آئی کے ڈالر کمانے والے یو ٹیوبرز عمران خان کو مفاہمت کی طرف جانےہی نہیں دیتے کیونکہ مفاہمت سے ان کی روزی روٹی بند ہو سکتی ہے ۔بس اسی فائدے کی خاطر اپنے لیڈر کو بظاہر چوم چوم کر مار رہے ہیں ۔

تضادستان کی اندھی سیاست میں عقل کی اہمیت کی بجائے جذبات کی حکمرانی ہی ہمارا مسئلہ ہے جس دن ہمارے ہاں عقل کی حکمرانی ہو گئی اندھی عقیدت سیاست میں ختم ہو گئی اس دن تضادستان کے تضاد دور ہو جائیں گے اور اصل پاکستان بن جائے گا ۔

تحریک انصاف کا مسئلہ اس جنونی عاشق جیسا ہو گیا ہے کہ اسے کسی دوسرے کی ہمدردی یا عقل کی بات ایک ایسا بہانہ لگتی ہے جس میں اسے پھنسایا جا رہا ہے اپنی غلطیوں کی وجہ سے تحریک انصاف کی بلبل کو ہر طرف جال بچھے نظر آتے ہیں ،اصل میں ہر ناکام عاشق اور ہر نامراد محبت کے ہر دو فریقوں کا اس دنیا سے ایمان اٹھ جاتا ہے جذبات سے بنائی گئی عمارت عقل کے ایک دھکے سے ٹوٹ جاتی ہے جھوٹ سے تراشا گیا خوبصورت پیکر سچ کے ایک ڈنکے سے ڈھیر ہو جاتا ہے ۔

وہی امریکی صدر ٹرمپ جس سے خان کی رہائی کی توقعات بندھی تھیں وہ پاکستانی مقتدرہ کا ترجمان بنا ہوا ہے پاک بھارت جنگ میں انصافی توقع کر رہے تھے کہ فوج کو جھٹکا لگے گا یہاں بھی صورتحال الٹ گئی ہے جنگ نے مقتدرہ کو مقبول بھی کر دیا ہے اور پہلے سے ان کا رتبہ بھی بڑھا دیا ہے۔

تحریک انصاف اپنے لیڈر کو چوم چوم کر نہ مارے، حقائق کی روشنی میں بیرسٹر گوہر علی اور ان کے ساتھیوں کے مصالحت پسند فارمولے کو تسلیم کیا جائے، جذباتی اور جنونی یو ٹیوبرز کے نرغے سے نکل کر حقیقت پسندانہ فیصلے کئے جائیں، اب اسے حالات کا جبر کہہ لیں وقت کی سچائی کا نام دے دیں یا زمینی حقائق سے ہمکنار ہونا سمجھ لیں، راستہ یہی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔