Time 23 مئی ، 2025
کاروبار

آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف حکومتی اخراجات میں کمی سے مشروط کردیا

اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے تنخواہ دار طبقے، جائیداد، مشروبات اور برآمدی شعبے کو خاطر خواہ ریلیف دینے سے پس و پیش کے بعد، دورے پر آئی ہوئی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ٹیم کے جاری مذاکرات کا نچوڑ یہ ہےکہ آئی ایم ایف نے وفاقی محاصل ادارے کے ٹیکس وصولی کے ہدف کو حکومتی اخراجات میں کمی سے مشروط کر دیا ہے۔ 

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ٹیم جمعہ (آج) کو اپنا دورہ مکمل کرے گی۔ صرف دفاعی بجٹ کو استثنیٰ حاصل ہوگا، کیونکہ اسلام آباد نے موجودہ جغرافیائی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اس میں اضافہ کا فیصلہ کیا ہے۔ 

وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے خطے کے ڈائریکٹر، جہاد ازعور، کی سربراہی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے وفد سے ملاقات کی۔ 

پاکستان نے کھاد پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کو 5 سے 10 فیصد تک بڑھانے اور کیڑے مار ادویات پر 5 فیصد نیا ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے کو مؤخر کرنے کی درخواست کی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی اس درخواست پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جزوی طور پر رضا مند ہو نے کی توقع ہے۔ 

تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہوگا کیونکہ سرکاری ملازمین کی تعداد میں کمی کی مہم اب ماند پڑ چکی ہے، اور تنخواہوں میں کمی کے باعث بجٹ میں کوئی خاص بچت نہیں ہو گی۔

ذرائع کا کہنا ہے: "ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کہ بجٹ تخمینوں کا حتمی حساب کتاب کیسے ہو گا ۔" حکومت دو جون کو پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرے گی، جس کے بعد بھی ورچوئل مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ 

مالیاتی بل 2025 کو قانون بننے سے پہلے تمام شرائط بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ہم آہنگ کی جائیں گی تاکہ بجٹ کی منظوری کے دوران تنقید کم ہو تاہم ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ آئندہ بجٹ میں محاصل ہی آئندہ چند برسوں کے لیے معیشت کا رخ طے کریں گے کیونکہ حکومت آخری کوششوں میں مصروف ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو تنخواہ دار طبقے کے لیے آمدنی کے ٹیکس کی شرحوں میں نرمی پر راضی کیا جا سکے۔

وفاقی محاصل ادارے کا ٹیکس ہدف آئندہ بجٹ میں 14 اعشاریہ ایک کھرب روپے سے زائد رکھا جائے گا، بشرطیکہ وزارتِ خزانہ اپنے اخراجات میں متناسب کمی کر سکے۔

دفاعی بجٹ اس بجٹ میں واحد استثنا ہو گا، جسے ملکی ضروریات کے مطابق بڑھایا جائے گا۔ ایک اور موقع اخراجات میں کمی کے لیے موجود ہے، جو قرضوں کی ادائیگی میں کمی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 

وزارتِ خزانہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اس مد میں 8 اعشاریہ 7 کھرب روپے کا تخمینہ دیا ہے لیکن یہ تخمینہ کم کر کے 8 سے 8 اعشاریہ 2 کھرب روپے تک لایا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے صوبوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کم کریں اور محصولات میں زائد آمدن پیدا کریں تاکہ مجموعی قومی خسارہ محدود رکھا جا سکے۔

ایک اور سرکاری اہلکار نے بتایا کہ حکومت نے موجودہ مالی سال (جون دو ہزار پچیس تک) کے اندر ایک ارب امریکی ڈالر کی تجارتی مالی معاونت کا انتظام کیا ہے۔

مزید خبریں :