24 مئی ، 2025
موٹاپے سے ملکی معیشت کو سالانہ 950 ارب روپے کا نقصان ہونے لگا اور ماہرین نے فوری اقدامات نہ ہونے کی صورت میں 2030 تک معاشی نقصان 2.13 کھرب پہنچنے کا خدشہ ظاہر کردیا۔
اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ہونے والے آگاہی سیشن کے دوران ماہرین صحت نے انکشاف کیا کہ موٹاپا پاکستان کی معیشت پر خاموشی سے ایک تباہ کن بوجھ بنتا جا رہا ہے جو فی الوقت سالانہ تین ارب اکتالیس کروڑ ڈالر یعنی 950 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا رہا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک یہ بوجھ بڑھ کر 7.6 ارب ڈالر یعنی 2.13 کھرب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ موٹاپا صرف انفرادی صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی صحت ایمرجنسی اور معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے، موٹاپے سے متعلقہ پیچیدگیوں کی وجہ سے سرکاری و نجی شعبے میں علاج معالجے پر بڑھتا ہوا خرچ، ملازمتوں سے غیر حاضری، کام کی پیداوار میں کمی اور وقت سے پہلے اموات معیشت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق موٹاپے کے باعث پاکستان میں ذیابیطیس، ہائی بلڈ پریشر، دل کے امراض، جگر میں چربی جمع ہونے اور گردوں کی بیماریوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان امراض کا براہ راست تعلق موٹاپے سے ہے اور یہ بیماریاں قومی وسائل کو چاٹ رہی ہیں۔
معروف معالج پروفیسر رؤف نیازی کے مطابق 70 سے 80 فیصد پاکستانی افراد بشمول بچے اب زائد الوزن یا موٹاپے کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور خوراک، جنک فوڈ، میٹھے مشروبات اور بیٹھے بیٹھے گزارا جانے والا طرز زندگی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ موٹاپا مردوں میں نامردی اور خواتین میں بانجھ پن جیسے مسائل کا سبب بن رہا ہے جبکہ یہ ذیابیطیس، فالج، دل کے دورے اور گردوں کو نقصان پہنچانے کی بنیادی وجہ بھی ہے۔
پروفیسر نیازی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی 85 فیصد آبادی فیٹی لیور جیسے خطرناک مرض کا شکار ہو سکتی ہے جو بظاہر خاموش رہتا ہے لیکن کولیسٹرول میٹابولزم، جسمانی سوزش اور دل کی بیماریوں کو بڑھا دیتا ہے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ سادہ طرز زندگی اپنانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی سیرت سے ملتا ہے جنہوں نے متوازن خوراک، باقاعدہ چہل قدمی، تیراکی اور جسمانی مشقت کو زندگی کا حصہ بنایا۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سے وابستہ ماہر ڈاکٹر ممتاز علی خان کے مطابق موٹاپے اور غیر صحت بخش عادات کی وجہ سے پاکستانی قوم عمر سے پہلے بوڑھی ہو رہی ہے۔
بطور ماہر امراض اطفال انہوں نے بچوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے پر شدید تشویش ظاہر کی اور کہا کہ اس کی بڑی وجوہات میں اسکرین ایڈکشن، جنک فوڈ اور جسمانی سرگرمیوں کی کمی شامل ہیں، والدین اکثر موٹے بچوں کو صحت مند سمجھتے ہیں جو کہ ایک خطرناک سوچ ہے۔
پمز اسلام آباد سے وابستہ ڈاکٹر محمد علی عارف نے کہا کہ سفید چینی، بیکری اشیا، میٹھے مشروبات اور پراسیسڈ خوراک پر بھاری ٹیکس عائد کیے جانے چاہیئیں کیونکہ یہ خوراک کی بنیادی ضرورت نہیں بلکہ مہلک عادت بن چکی ہیں۔