Time 02 جون ، 2025
بلاگ

خان کے بے وفا ہمدرد

عمران خان نے ایک بار پھر تحریک انصاف کو احتجاجی تحریک چلانے کا کہہ دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ حکومت اور حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے کوئی بات نہیں ہوگی ، بات ہو گی تو صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ۔

 اس سلسلے میں عمران خان نے یہ بھی کہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی فرد یا نمائندے سے ملنے کو تیار ہیں،  علیمہ خان بھی کہہ چکی ہیں کہ عمران خان’’ کچھ لو کچھ دو ‘‘کیلئے تیار ہیں اور اس حوالے سے بات کرنی ہے تو عمران خان سے کریں یا اُنکی بہنوں سے، حال ہی میں یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ عمران خان کیساتھ اسٹیبلشمنٹ کے کسی نمائندےکی گزشتہ ماہ کے پہلے ہفتہ میں ملاقات ہوئی جس کے نتیجے میں کوئی ڈیل ہو سکتی ہے اور عمران خان عید سے پہلے رہا ہو سکتے ہیں لیکن یہ سب خبریں افواہیں نکلیں۔

 عمران خان نے خود بھی اور اُن کے پارٹی رہنماؤں نے بھی ان خبروں کی تردید کی بلکہ حالات اسکے برخلاف چل رہے ہیں، امریکا سے پاکستانی نژاد ڈاکٹرز اور بزنس مین جو چند ماہ قبل عمران خان سے جیل میں اور ایک اعلیٰ سرکاری افسر سے اسلام آباد میں ملاقات کر چکے ہیں، ایک بار پھر گزشتہ آٹھ دس دن سے پاکستان میں موجود ہیں تاکہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی مصالحت کا رستہ نکالا جائےتاہم اُنکی نہ عمران خان سے ابھی تک ملاقات کروائی گئی اور نہ ہی اُن سےکوئی اعلیٰ سرکاری افسر ملا۔

 دوسری طرف عمران خان نے ایک بار پھر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سخت بیانات دینا شروع کر دیے ہیں اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو براہ راست نشانہ بنا رہے ہیں، اب اس پالیسی سے کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے بات چیت کرنے پر راضی ہو سکتی ہے؟ اسکی کوئی زیادہ امید نہیں، گویا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار عمران خان کی احتجاجی تحریک کس نوعیت کی ہو گی۔

 اُس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پارٹی ہر شہر میں احتجاج کریگی اور اس احتجاج کا مقصد عمران خان کی رہائی اور حقیقی آزادی کاحصول ہے،  احتجاج پہلے بھی ہو چکے،  لانگ مارچ بھی کیے گئے، دھرنوں کا تجربہ بھی کر لیا گیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا اور سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ عمران خان کیلئے بڑی تعداد میں لوگ باہر نہ نکلے۔

اب کیا تحریک انصاف کے رہنمااور ووٹرز، سپورٹرز عمران خان کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے بڑی تعداد میں گھروں سے نکل کر اس احتجاجی تحریک کا حصہ بنیں گے، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آنیوالے ہفتوں میں سب کے سامنے ہو گا،  عمران خان کی احتجاجی تحریک کی کامیابی کیلئے لازم ہےکہ تحریک انصاف کے ووٹرز ،سپورٹرز لاکھوں کی تعداد میں ملک کے مختلف حصوں میں نکلیں۔

 اس کیلئے پارٹی رہنماؤں اور ورکرز کو مشکل حالات کا سامنا ہو سکتا ہے جس کیلئے اُنہیں تیار ہونا چاہئے،  تحریک انصاف کے وہ ووٹرز، سپورٹرز جن کا احتجاج اپنے گھروں یا دفتروں تک محدود رہتا ہے اور جو سوشل میڈیا تک ہی دوسروں کو گالم گلوچ اور بہتان تراشی کا نشانہ بنا کر اپنی ’’حقیقی آزادی‘‘ کی جنگ کو محدود کیے ہوئے ہیں اُنہیں بڑی تعداد میں باہر نکلنا پڑے گا اور چاہے اس کیلئے اُن کو جیلوں میں جانا پڑے یا کوئی دوسری مشکل کا سامنا کرنا پڑے اُن کو ہر قسم کے نتائج کیلئے تیار رہنا ہو گا،  اس احتجاجی تحریک کو کامیاب بنانا ہے تو پھر تحریک انصاف کے وہ رہنما جو روپوش ہیں یا مفرور اُن سب کو پاکستان واپس آنا چاہیے۔

 اسی طرح بیرون ملک بیٹھے تحریک انصاف کے ٹائیگرز کو پاکستان آ کر عملی طور پر اس احتجاج کا حصہ بننا چاہیے،  اگر ایسا نہیں ہو گا تو پھر عمران خان کو شکایت دوسروں کی بجائے اپنے پارٹی رہنماؤں اور اپنے ووٹرز ،سپورٹرز سے کرنی چاہیے،  اگر تحریک انصاف کے ووٹرز ،سپورٹرز کوئی مشکل برداشت نہیں کرنا چاہتے تودوسروں کو بُرا بھلا کہنے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔

 جو عمران خان کی پالیسی سے اختلاف کرتا ہے اُس سے کوئی گلہ بنتا ہی نہیں،  گلہ اور شکایت تو اُن سے ہونی چاہئے جو عمران خان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن وہ اپنے خان کی رہائی اور ’’حقیقی آزادی‘‘ کیلئے باہر نہیں نکلتے، وہ اپنے رہنما کی آزادی کے خواہشمند ہیں لیکن خود کسی قسم کی مشکل میں پڑنا نہیں چاہتے،  دوسروں کو گالیاں دینے اور طعنے دینے سے بہتر ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما اور ووٹرز، سپورٹرز اپنا چہرہ آئینے میں دیکھیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔