12 جون ، 2025
روس کے مشہور ادیب دوستو فسکی کی زندگی ایک ڈرامہ تھی۔ حکومت مخالف ادب کو فروغ دینے کے جرم میں اسے موت کی سزا دی گئی لیکن جب اسے فائرنگ اسکواڈ کے سامنےگولی مارنے کیلئے پہنچایا جا رہا تھا تو آخری لمحات میں جیل حکام کو اطلاع ملی کہ دوستو فسکی کی سزائے موت کو قید میں بدل دیا گیا۔
وہ موت سے تو بچ گیا لیکن اسے کئی سال سائبیریا کی ایک جیل میں گزارنا پڑے۔ جیل سے رہائی پر اس نے ایک ناول لکھا جس کا نام CRIME AND PUNISHMENT (جرم اور سزا) تھا۔ اس ناول کی وجہ سے دوستو فسکی کو عالمی شہرت حاصل ہوئی وہ حکمران جو دوستو فسکی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے وہ اسکی خوشامد کرتے نظر آئے۔ فرحت اللہ بابر نے آصف علی زرداری کے پہلے دور صدارت 2008تا 2013کے بارے میں لکھی گئی اپنی انگریزی کتاب (دی زرداری پریذیڈینسی) کا اختتام دوستو فسکی کے مشہور ناول ’’جرم اور سزا‘‘ کے دو کرداروں پر کیا ہے۔ فرحت اللہ بابر اپنی کتاب کی آخری سطور میں لکھتے ہیں کہ ’’آخری تجزیہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری کو ہمیشہ ایک ولن بنا کر پیش کیا گیا۔
انہیں دیکھ کر دوستو فسکی کا مشہور ناول جرم اور سزا یاد آتا ہے جس کا مرکزی کردار راسکو نیسکوف ایک عورت سونیا کو بہت گناہ گار سمجھتا ہے لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ سونیا گناہ گار نہیں تو پھر وہ سونیا کے قدموں میں گر کر اس سے معافی مانگتا ہے۔ راسکو نیسکوف کی یہ معافی دراصل انسانی برداشت کی فتح تھی۔ جن لوگوں نے جنرل مشرف کے الفاظ میں چوہے اور بلی کا کھیل کھیلا وہ بھی انسانی برداشت کےسامنے ہار گئے۔ انہوں نے آصف علی زرداری سے معافی تو نہیں مانگی لیکن زرداری کو اور کیا چاہئے کیونکہ وہ تو ہارنے والوں پر فاتحانہ انداز میں ہنس رہے ہیں‘‘ کتاب کی آخری سطور پڑھنے کے بعد میں سوچنے لگا کہ فرحت اللہ بابر نے آصف علی زرداری کو سونیا سے تو تشبیہ دیدی لیکن پاکستان کا راسکو نیسکوف کون ہے؟
اس کتاب کے دیباچے میں کہا گیا ہے کہ قارئین کی تنقید کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بابر صاحب کی کتاب پر پیپلز پارٹی کے اندر زیادہ تنقید ہو رہی ہے جسکی بڑی وجہ کتاب کے منظر عام پر آنے کی ٹائمنگ ہے۔ میڈیا میں کتاب کے صرف وہ حصے اجاگر ہوئے جن میں بتایا گیا کہ 2008ء میں آصف علی زرداری اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مرضی کے خلاف صدر مملکت بنے اور ایبٹ آباد آپریشن کے بعد کیانی اور صدر زرداری میں غلط فہمیاں بہت بڑھ گئیں۔
ان واقعات کی روشنی میں تو زرداری صاحب کا دوبارہ صدر بننا بہت مشکل تھا لیکن 2024ء میں وہ دوبارہ صدر بن گئے اور موجودہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ فرحت اللہ بابر پیپلز پارٹی کے اندر ایک ایسے مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں جو شروع سے ہی آصف علی زرداری کے سیاست میں آنے کے خلاف تھا۔ پھر حالات بدلے اور زرداری صاحب پیپلز پارٹی کی مجبوری بن گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں زرداری صاحب نے سیاست میں حصہ نہیں لیا لیکن جب 1989ء میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو اسے ناکام بنانے کیلئے انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔
اسی کردار کے باعث اپوزیشن نے انہیں مسٹر ٹین پرسنٹ کہا اور جب 1990ء میں محترمہ کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا تو زرداری صاحب کو کئی جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر لیا گیا۔ اسی زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا تھا کہ آصف علی زرداری الیکشن لڑیں گے تاکہ عوام کی عدالت سے سرخرو ہو سکیں۔ میں نے روزنامہ جنگ کے سیاسی ایڈیشن میں جب یہ لکھا کہ زرداری صاحب کو مجبوری میں الیکشن لڑایا جائے گا تو پیپلز پارٹی پنجاب کے کئی سینئر رہنمائوں نے میری خبر کی تردید کر دی تھی۔ پھر زرداری صاحب الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی پہنچ گئے انہیں سیاست میں لانے کا فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا لیکن آج بھی پیپلز پارٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو زرداری صاحب کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتے۔ میں ایک اور واقعے کا عینی شاہد ہوں جب 1992ء میں پیپلز پارٹی کےتین رہنمائوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے کہا کہ آپ آصف علی زرداری سے طلاق لے لیں تو آپ کے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔
محترمہ نے یہ تجویز مسترد کر دی تھی فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب کے صفحہ 24پر لکھا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی یا حکومت میں اپنے خاوند کے ہائی پروفائل کردار کی کبھی حوصلہ افزائی نہ کی تھی لیکن اسی صفحے پر لکھتے ہیں کہ زرداری صاحب ناصرف پارلیمینٹ کے رکن بن گئے بلکہ اپنی اہلیہ کی کابینہ میں بھی شامل کر لئے گئے۔ یہ تضاد کتاب میں جگہ جگہ نظر آتا ہے لیکن دوسری طرف اس کتاب میں زرداری صاحب پر کرپشن کے الزامات غلط قرار دے دیئے گئے ہیں۔ بابر صاحب نے صفحہ 50پر لکھا ہے کہ آصف علی زرداری نے گیارہ سال جیلوں میں بغیر کسی سزا کے گزارے اور ان پر کوئی الزام سچا ثابت نہ ہوا۔
ان پر کئی مقدمے بنانے والے سیف الرحمان نے انکے قدموں میں گر کر معافی مانگی۔ اتفاق سے اس معافی کا بھی میں عینی شاہد ہوں سیف الرحمان نے جن کے حکم پر یہ مقدمے بنائے انہوں نے تو کبھی زرداری صاحب سے معافی نہیں مانگی۔ اس کتاب میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا کے علاوہ نواز شریف، عمران خان، شاہ محمود قریشی اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پر بہت تنقید کی گئی ہے جنہوں نے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر زرداری صاحب کے خلاف سازشیں کیں۔
بابر صاحب نے کتاب کے آغاز میں اعتراف کیا ہے کہ آصف علی زرداری نے انہیں کبھی متاثر نہیں کیا لیکن صفحہ 146پر یہ اعتراف کرتے ہیں کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرنے کی مہم کے پیچھے جنرل کیانی تھے اور جب صدر زرداری اس مہم کا مقابلہ کر رہے تھے تو میں انکی مزاحمت سے بہت متاثر ہوا۔ بابر صاحب نے لکھا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے احتساب کا موقع پیدا ہوا لیکن زرداری صاحب نے یہ موقع گنوا دیا اور پھر وہ میمو سکینڈل کا نشانہ بنے۔ اسی سکینڈل میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے اور دوسری طرف جنرل پاشا نے عمران خان کی خفیہ سرپرستی شروع کر دی۔
زرداری صاحب پر استعفے کیلئے دبائو ڈالا گیا ایک رات انکی طبیعت خراب ہو گئی تو جنرل کیانی نے سی ایم ایچ راولپنڈی میں علاج کی پیشکش کی لیکن عدم اعتماد اتنا زیادہ تھا کہ زرداری صاحب نےسی ایم ایچ جانے سے انکار کر دیا۔ بابر صاحب کے بقول زرداری صاحب علاج کیلئے دبئی جانا چاہتے تھے وہ اپنے ساتھ حسین حقانی کو بھی لے جانا چاہتے تھے۔ ایک دن وہ لوڈڈ گن کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے تو ڈاکٹر عاصم حسین نے انکے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ زرداری صاحب کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ ہیلی کاپٹر میں فائرنگ شروع کر دیں۔ اس واقعے کی ڈاکٹر عاصم حسین نے تردید کی ہے کیونکہ وہ تو دبئی میں بھی زرداری صاحب کے ساتھ موجود تھے۔
حسین حقانی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں زرداری صاحب کے پاس کوئی گن نظر نہیں آئی۔ ڈاکٹر عاصم اور حسین حقانی کا کہنا ہے کہ فرحت اللہ بابر تو موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔ بہرحال بابر صاحب نے ایران اور سعودی عرب میں مفاہمت سے سی پیک کے آغاز تک کئی اہم تمغے زرداری صاحب کے گلے میں ڈال دیئے ہیں اور انکی برداشت و حوصلے کی داد دینے میں بخل سے کام نہیں لیا میری رائے میں زرداری صاحب کا کردار سونیا سے زیادہ دوستو فسکی سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے کیونکہ جن طاقتوں نے دوستو فسکی کو جھوٹے الزامات میں جیل بھیجا وہ بعد میں دوستو فسکی کی پرستار بن گئیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔