Time 16 جون ، 2025
بلاگ

واشنگٹن میں پی ٹی آئی حامیوں نے احتجاج کرکے کس کے مفادات کو فائدہ پہنچایا؟

واشنگٹن میں پی ٹی آئی حامیوں نے احتجاج کرکے کس کے مفادات کو فائدہ پہنچایا؟
فوٹو: فائل

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں نے احتجاج کرکے کس کے مفادات کو فائدہ پہنچایا ہے؟

اسے پاک بھارت اور ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ اس سے موگیمبو بہت خوش ہوا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے ایران پر حملے کا آغاز  آرمی چیف میجر جنرل محمد باقری اور پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی سمیت اہم ترین فوجی کمانڈروں اور نیوکلیئر سائنسدانوں پر حملے سے کیا، اسرائیل نے اس طرح دنیا کو  پیغام دیا کہ اگر کسی ملک کو واقعی چوٹ پہنچانا ہو تو  پہلا انتخاب کیا ہونا چاہیے۔

پاک بھارت جنگ ہوئی تو اس دوران بھارتی میڈیا وزیراعظم شہباز شریف اور  آرمی چیف کا تمسخر  اڑانے کی کوشش میں جُٹا رہا، یہ الگ بات کہ حاصل حصول صفر  رہا، نام نہاد بڑے بڑے صحافیوں کو اپنا تھوکا چاٹنا پڑا مگر  بھارتی میڈیا نے یہ ضرور  واضح کردیا کہ ملک میں نفاق کا بیج بونا ہوا تو  پہلا وار کس پر کیا جانا چاہیے۔

اس پس منظر کے ساتھ دیکھیں تو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے واشنگٹن میں کیے گئے مظاہرے کا مقصد واضح ہوجاتا ہے، ان میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر  شریک نہیں ہوا جو  یہ بتا سکے کہ اس نے اپنے سیاسی کیریئر  میں یا زندگی میں پاکستان کی کس قدر خدمت کی تھی۔

یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ان میں سے کئی چیمپئن ایسے ضرور ہیں جنہوں نے مالی اور  سیاسی مفادات حاصل کیے تھے، یہ وہ لوگ تھے جو عمران دور  حکومت میں اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے رہے تھے اور  جیسے ہی پارٹی پر کڑا وقت آیا، موقع پاتے ہی پتلی گلی سے نکل لیے۔

ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے امریکا میں عمران خان کے انتہائی صاحب ثروت پرستاروں سے مختلف بہانوں سے بھاری رقم  سمیٹی اور  اراکین کانگریس اور  تھنک ٹینکس سے رابطے پیدا کیے، رفتہ رفتہ ان میں سے بعض کو  پر لگ گئے۔

ان میں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو نام نہاد سوشل میڈیا اسٹار کہلاتا ہے، اس کا کام تحریک انصاف کے حامیوں کو صبح و شام بلا ناغہ افیم کی گولیاں کھلانا ہے، راگ ایک ہی ہے وقت دور نہیں، عمران خان کو جلد رہائی ملے گی اور  پھر سب پہلے جیسا ہوجائےگا، کی بورڈ وارئیر کا کام اس مؤقف کا ڈھول پیٹنا ہے، ان دونوں طبقوں کی روزی روٹی اسی سے جُڑی ہے۔

امریکا میں یہ جو بھی کریں، یہ انکا حق ہے مگر پاکستان میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کے جو رہنما یہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے باہر جسے مظاہرہ کرنا ہے وہ کرے، انہیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ان مظاہروں میں جو کچھ کہا جاتا ہے،  بینرز اور  پلے کارڈ اٹھاکر  یہ چند سو لوگ احتجاج کرتے ہیں، کیا اس بیانیے کو  بھی پی ٹی آئی پاکستان اون کرتی ہے؟ اگر نہیں تو کیا اس مظاہرے کو ڈس اون کرے گی؟

پی ٹی آئی بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان میں اب یہ بڑا مظاہرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، عمران خان کے حق میں کتنے ہی لوگ ہوں،  وہ اب مظاہروں کیلیے نکلنے پر تیار نہیں، منہگائی کے اس دور  میں جب دو  وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں، مظاہرے کیلیے نکل کر  دن برباد کرنےکا بھوت بہت سوں کے سر سے اُترچکا، ان افراد کے اہل خانہ جو کبھی مظاہروں میں جایا کرتے تھے وہ بھی جون ایلیا کا یہ شعر دہراتے ہیں کہ

’اب نکل آؤ اپنے اندر سے

گھر میں سامان کی ضرورت ہے‘

پاکستان میں تو عید بعد مظاہرے نہ کیے جاسکے لیکن بیرون ملک یہ حسرت پوری کرلی گئی۔ دیکھا جائے تو امریکا میں پی ٹی آئی کے احتجاج کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔

یہ مظاہرہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب اسرائیل نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا بہانہ بنا کر ایران پر  حملہ کیا ہے، کسی حد تک اُسی طرح جیسے امریکا نے عراق پر حملہ کیا تھا۔

امریکی حملے کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ عراق اور  مشرق وسطی کے وہ ممالک جو اسرائیل کیخلاف تھے، وہاں ایک ایک کرکے سربراہان مملکت تبدیل کرکے ہم خیال حکومت قائم کردی گئی۔

شام کے بشارالاسد، لبنان کی حزب اللہ اور  فلسطین کی حماس کو  ایران کے دست و بازو کہا جاتا تھا، انہیں غیرمؤثر کرنے کے بعد اب شہ رگ یعنی ایران پر  حملہ کیا گیا ہے تاکہ ایسی حکومت ہی نہ ہو جس کے دست و بازو اسرائیل کو جکڑ سکیں، ایران اس صورتحال میں اسرائیل اور  اسکے اتحادیوں سے کس حد تک اور کیسے نمٹتا ہے، اسکی مقدور  بھر  تیاری یقیناً وہ عشروں سے کرتا رہا ہوگا۔

ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا میں پی ٹی آئی نے مظاہرہ ایسے وقت بھی کیا گیا ہے جب اس جنگ میں پاکستان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا بازار گرم ہے جنہیں یہ تک پتہ نہیں کہ اسرائیلی حکام انگریزی میں جو دھمکیاں دے رہے ہیں، ان کا مطلب کیا ہے؟  وہ اسے بھی غلط ترجمہ کرکے جو ذہن میں آیا وہ معنی پہنا کر آگے بڑھا رہے ہیں۔

یہاں قابل توجہ امر  یہ ہے کہ اسرائیل کی طرز  پر  پیشگی حملے کرنے کے جنون میں مبتلا بھارت ہی نہیں، کئی اور ممالک بھی ہیں جنہیں پاکستان کا ایٹمی پروگرام کھٹکتا ہے اور  اب اس کی شدت اس لیے بڑھی ہے کہ افواج پاکستان نے ثابت کردیا ہے کہ بھارت جیسا بڑا دشمن روایتی ہتھیاروں سے جنگ کرے تو اسے چند گھنٹوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

اس جنگ نے یہ بھی روز  روشن کی طرح عیاں کیا ہے کہ بھارت جیسا سرپھرا دشمن ہو تو پاکستان کیلیے ایٹمی ہتھیار  ضروری کیوں ہیں، یہ الگ بات ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان وہ نوبت آنے سے پہلے ہی جنگ بندی کرادی تھی۔

ہابیل اور  قابیل کے اختلافات سے واضح ہے کہ رائے مختلف ہونا ازل سے چلا رہا ہے،  سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن پاکستان تحریک انصاف کو  یہ سوچنا چاہیے کہ ملک ڈیفالٹ کے دہانے سے واپس لاکر حکومت نے اس لنگڑی لولی معیشت کو  پھر سے ڈگر پر کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔

مخالفین نے لاکھ کوششیں کیں مگر  پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل نہیں ہونے دیا گیا، یہ درست ہے کہ معیشت مضبوط کی جائے، بڑھتی انتہا پسندی سمیت گھر کی خرابیاں درست کی جائیں تاہم حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دوسرے ملکوں کے دارالحکومتوں میں چوراہے پر  بے بنیاد الزامات لگا کر بدنام کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

واشنگٹن میں پی ٹی آئی کے مظاہرے میں شریک افراد نے کیا حاصل کیا یہ تو وہی جانتے ہوں گے، پاکستان کے ہاتھوں عبرتناک شکست سے دوچار  مودی سرکار کو گودی میڈیا پر چلانے کیلیے کچھ نہ کچھ مواد ضرور ہاتھ آیا۔

یہاں یہ ذکر اہم ہوگا کہ واشنگٹن کے کیپٹل ون ایرینا میں عمران خان نے جب بطور وزیراعظم اپنے حامیوں سے خطاب کیا تو  20 ہزار کیپیسٹی کے حامل اس مقام میں 14 سے 15 ہزار افراد جمع تھے، پہلی صف میں ہونے کے سبب میں اس کا عینی شاہد ہوں، اب واشنگٹن میں مظاہرہ کرنیوالوں کی تعداد 200 سے 300  رہ گئی۔

آٹے میں نمک کے برابریہ مظاہرین اس بات کی علامت بنے کہ پی ٹی آئی اوور سیز کا منجن اب بیرون ملک بھی بکنے والا نہیں، ہاں یہ ضرور  ہے کہ اس مظاہرے میں شریک افراد نے بتادیا کہ پاکستان مشکل حالات میں ہو تو امریکا میں مخالفت کھڑے ہونے والوں کی تعداد کتنی ہوگی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔