16 جون ، 2025
اسلام آباد: سپریم کورٹ آئینی بینچ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیےکہ 13 جنوری کا فیصلہ تو پارٹی الیکشن نہ کرانے کی وجہ سے آیا تھا، یہ کہنا درست نہیں ہے کہ 13 جنوری کے فیصلے کی وجہ سے انتخابات آزادانہ نہیں رہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مواقع فراہم کرنے کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر 13 جنوری کا فیصلہ آیا، الیکشن کمیشن نے پارٹی کو سننے کے بعد انتخابی نشان الاٹ نہ کرنے کا فیصلہ دیا، بینچ کا سوال یہ ہے کہ انتخابی نشان لے کر بھی پی ٹی آئی جماعت تو موجود تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فیصلہ 13 جنوری کوآیا، کاغذات نامزدگی دسمبر میں جمع ہوئے تب بھی کچھ امیدواروں نے آزاد حیثیت دکھائی،فیصل صدیقی نے جواب دیا الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی سے انتخابی نشان لے لیا تھا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا جو آزاد تھے انہوں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کرلیا تھا ان کی واپسی کیسے ہوسکتی ہے؟ ریلیف سنی اتحاد کونسل کی جگہ پی ٹی آئی کو دیا گیا تھا، کیا بطور وکیل سنی اتحاد کونسل آپ فیصلے سے متفق ہیں؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا جی میں فیصلے سے متفق ہوں، ہمارا اور پی ٹی آئی کا مفاد ایک تھا اس لیے نشستیں پی ٹی آئی کو ملنے پر اعتراض نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جب آپ کا اور پی ٹی آئی کا آئین اور پارٹی کا ڈھانچہ مختلف ہے تو مفاد ایک کیسے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا مفاد مخصوص نشستوں کے معاملے میں ایک ہی تھا۔
وکیل نے کہا جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں لکھا کہ حالات ایسے تھے کہ ممبران کو سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا کسی امیدوار نے خود ان حالات کا تذکرہ کیا جس کی وجہ سے انہیں سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا؟
جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ سنی اتحاد کونسل نے نشستیں مانگیں لیکن اکثریتی یا اقلیتی فیصلے میں غلط یا صحیح نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی گئیں، اب آپ کی پوزیشن تبدیل ہے، آپ پی ٹی آئی کی طرف سے دلائل دے رہے ہیں، وکیل نے جواب دیا میں نہ سنی اتحاد کونسل نہ پی ٹی آئی کا حامی ہوں بلکہ میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی حمایت کررہا ہوں،جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے جو ناانصافی سپریم کورٹ نے پہلے کی اس کا مداوا مخصوص نشستوں کے فیصلے نے کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن ایکٹ رول 94 کو کالعدم قرار دیا گیا کہ ریٹرننگ افسر آزاد ڈکلیئر نہیں کرسکتا، جب ریٹرننگ افسر کو اختیار نہیں تو سپریم کورٹ کو کیسے ہےکہ آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا قرار دے؟ وکیل نے جواب دیا 11 ججوں نےکہا کہ الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینےکا فیصلہ غیر قانونی تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا وہ صرف ان ارکان تک تھا جنہوں نے کاغذات نامزدگی اور پارٹی ٹکٹ پی ٹی آئی کا دیا، صرف 14 پی ٹی آئی امیدوار تھے جنہوں نے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا، لیکن ہم نے یہ فرض کیا کہ انہوں نے جمع کرایا ہو اور وہ ادھر ادھر ہوگیا ہو، اس وجہ سے ہم نے 39 ارکان کو تصور کیا۔
عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت اور اسپیکر صوبائی اسمبلی کی فریق بننے کی درخواست پر نوٹس جاری کردیے۔ وکیل نے کہا ہم نے بینچ پر اعتراضات عائد کیے تھے جن کو مسترد کیا گیا، تفصیلی وجوہات جاری ہونے پر نظرثانی درخواست دائر کریں گے۔
کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔