Time 18 جون ، 2025
بلاگ

عمران خان کے نام!

عمران خان کے نام!
ایک لمحہ کیلیے مان لیں کہ مظاہرہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا، ممکن ہے کہ بعض حامی ڈر کے مارے شریک نہ ہوئے ہوں لیکن گھر بیٹھے سوشل میڈیا پر یہ مظاہرہ دیکھنے میں بھی لوگوں کی دلچسپی نظر نہیں آئی— فوٹو:فائل

نہیں معلوم کسی نے سمجھایا یا بانی پی ٹی آئی کو میرا 16 جون کو شائع مضمون پہنچایا جو عمران خان نے احتجاجی تحریک دو ہفتوں کیلیے مؤخر کردی۔

عمران خان کی بہن نورین خانم کے بقول بانی پی ٹی آئی کو عالمی حالات سے مکمل آگاہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی حالات کا اثرپاکستان پر پڑے گا اس لیے تمام پاکستانی متحد ہوں اور انہی حالات کے سبب عمران خان نے احتجاجی تحریک دو ہفتے کیلیے مؤخر کردی ہے۔

اس بیان سے ایک روز پہلے یعنی 16 جون کو جیونیوز اردو کیلیے میں نے مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا کہ واشنگٹن میں پی ٹی آئی حامیوں نے احتجاج کرکے کس کے مفادات کو فائدہ پہنچایا؟

اس میں یہ بات اجاگر کی گئی تھی کہ امریکا میں پی ٹی آئی کے مظاہرے کو پاک بھارت اور ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ اس سے موگیمبو بہت خوش ہوا ہے۔

یہ بھی کہ پی ٹی آئی کے مظاہرے میں شریک افراد نے کیا حاصل کیا یہ تو وہی جانتے ہوں گے، پاکستان کے ہاتھوں عبرتناک شکست سے دوچار مودی سرکار کو گودی میڈیا پر چلانے کیلیے کچھ نہ کچھ مواد ضرور ہاتھ آیا۔

آٹے میں نمک کے برابریہ مظاہرین اس بات کی علامت بنے کہ پی ٹی آئی اوور سیز کا منجن اب بیرون ملک بھی بکنے والا نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس مظاہرے میں شریک افراد نے بتادیا کہ پاکستان مشکل حالات میں ہو تو امریکا میں مخالفت کیلیے کھڑے ہونے والوں کی تعداد کتنی ہوگی۔

تعداد کا ذکر اس لیے کیا تھا کیونکہ ایک دور تھا کہ واشنگٹن کے کیپٹل ایرینا میں عمران خان کے خطاب کے وقت تیرہ سے چودہ ہزار لوگ موجود تھے جبکہ اس مظاہرے میں امریکا، برطانیہ اور سعودی عرب سے پی ٹی آئی کے آئے حامیوں کی مجموعی تعداد ڈھائی سو کے قریب تھی۔

ایک لمحہ کیلیے مان لیں کہ مظاہرہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا، ممکن ہے کہ بعض حامی ڈر کے مارے شریک نہ ہوئے ہوں لیکن گھر بیٹھے سوشل میڈیا پر یہ مظاہرہ دیکھنے میں بھی لوگوں کی دلچسپی نظر نہیں آئی۔

پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر واشنگٹن میں مظاہرے کی لائیو کوریج کی گئی تھی۔ دو بڑے پلیٹ فارمز پر اسے دیکھنے والوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب تھی۔ کیا پی ٹی آئی کی یہی طاقت رہ گئی ہے؟

یعنی یہ پہلا موقع تھا کہ امریکا میں بھی پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص میں فیلڈ مارشل عاصم منیر، اتحادی حکومت اور مجموعی طورپر شہباز حکومت کا ساتھ دینے والی سیاسی جماعتوں کی عوام میں گُڈی چڑھی ہوئی ہے۔

امریکا میں ناکام مظاہرے سے پی ٹی آئی اور اس کے بانی کی امیدوں پریقیناً پانی پھرا ہوگا جو پاکستان میں احتجاجی تحریک مؤخر کی گئی ورنہ عمران خان کو عالمی صورتحال کا اگراندازہ تھا تو یہ مظاہرہ ہونے ہی نہ دیا جاتا۔ اس صورتحال میں سلیم کوثر کا شعر یاد آیا کہ:

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے

جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کو ئی اور ہے

سوال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو آیا خبر ہوگئی ہے کہ جس راستے پر وہ چل رہی ہے وہ غلط ہے اور کیا انہیں مزید کسی تنبیہ کی ضرورت نہیں؟ یہ بھی کہ سوچ میں تبدیلی کا پیمانہ کیا ہوگا؟

شاید سب سے پہلی بات اس مظاہرے کو ڈس اون کرنا ہوگا۔ اگر بانی پی ٹی آئی اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کے اراکین اس مظاہرے میں کہی گئی باتوں کی مخالفت نہیں کرتے تو اس کا مطلب اس مظاہرے میں لائے گئے بینرز، پوسٹرز، اسکرینز پرچلائے گئے پیغامات اور نام نہاد رہنماؤں کے خطاب کی توثیق کے مترادف ہوگا۔

یہاں یہ عذر پیش نہیں کیا جاسکتا کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے لوگ اس مظاہرے میں بھیج کر بیانیہ تبدیل کردیا ورنہ احتجاج کا مقصد محض بانی پی ٹی آئی کی رہائی تھی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے باقاعدہ انٹرویوز لیے گئے جن کے ہاتھوں میں قابل اعتراض تصاویر اورپیغامات کے حامل پوسٹرز تھے اور خود نام نہاد لیڈروں کے الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ مظاہرے کا اصل مقصد کیا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پی ٹی آئی نے اس بیانیہ کو تاحال ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی زینت بنایا ہوا ہے۔

امریکا میں صدارتی الیکشنز کے موقع پر میں نے بحثیت پروڈیوسر کئی شوز ترتیب دیے تھے جن میں سے پہلا پروگرام اسی بات پر تھا کہ آیا صدر ٹرمپ جیتے تو کیا عمران خان کی رہائی ہوگی یا نہیں؟

چونکہ شوز کے تمام تر سوالات میرے ہی لکھے ہوئے تھے، اس لیے میں نے مہمانوں سے خاص طور پر یہی سوال مختلف انداز سے کروایا تھا۔ مہمان بھی جانتے تھے کہ میرا طویل عرصے سے مؤقف رہا ہے کہ امریکا میں کوئی بھی صدر ہو پالیسی ایک جیسی رہتی ہے، محض اہداف حاصل کرنے کا طریقہ بدلتا ہے اور یہ بھی کہ مجھے یقین ہے کہ عمران خان کیلیے امریکا میں کئی حلقے سرگرم ضرور سہی، ٹرمپ جیتے بھی تو قیدی نمبر804 کیلیے اچھی خبر نہیں آئے گی۔

پی ٹی آئی کی امیدوں پر آج کی پیشرفت سے ضرور اوس پڑی ہوگی۔ یہاں یہ ماننا چاہیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف میں کئی ایسے سیاستدان ہیں جن کی ملک اور عوام کو ضرورت ہے۔ اسی لیے ملک میں ان کا ووٹ بنک بھی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان غلطی کا پتلا ہے اور میں عام طور پر کہتا ہوں کہ غلطی صرف وہ کرتا ہے جو کام کرتا ہے۔ ویسے بھی کام نہ کرنے سے بڑی کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کا اعتراف کریں، اسے دوبارہ نہ ہونے دینے کی ہر ممکن کوش کریں اور آگے بڑھیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔