22 جون ، 2025
پاکستان اورامریکا کے سفارتی تعلقات تاریخی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ تاریخ میں یہ بظاہر پہلا موقع ہے کہ امریکا کے صدر کو نوبیل انعام دینے کیلیے حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر خط وزیر خارجہ اسحق ڈار کے دستخط سے ناروے کی نوبیل کمیٹی کو ارسال کردیا۔
ناروے کی نوبیل کمیٹی کے مطابق 9 کیٹیگریز ایسی ہیں جن میں شامل افراد یا ادارے کسی شخصیت کیلیے نوبیل انعام کی سفارش کرسکتے ہیں۔ اس میں سرفہرست یہ ہے کہ کسی خودمختار ملک کی حکومت ، اراکین اسمبلی یا موجودہ سربراہ ریاست کو یہ حق حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ کیلیے حکومت پاکستان یہ حق استعمال کررہی ہے۔
صدرٹرمپ کا پاک بھارت جنگ بندی میں غیرمعمولی کردار اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلیے بارہا کی گئی ثالثی کی پیشکش حکومت پاکستان کی جانب سے کی گئی اس غیرمعمولی سفارش کی بنیاد ہیں۔
نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحق ڈار کے دستخط سے حکومت پاکستان نے یہ خط فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس کے کیبنٹ روم میں ملاقات اور ظہرانے کے دو روز بعد ارسال کیا۔
سفارتی حلقوں کا خیال تھا کہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی یہ ملاقات زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے جاری رہے گی، ان حلقوں کی حیرت اس وقت دور ہوگئی جب صدرٹرمپ نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوِئے فیلڈ مارشل سے ملاقات کو خود اپنے لیے اعزاز قرار دینے کا جملہ دو بار ادا کیا۔
فیلڈ مارشل سے کی گئی گفتگو صدر ٹرمپ کیلیے اس قدر اہمیت کی حامل تھی کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان شاید دیگر ممالک کے مقابلے میں ایران کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ یہ اُس صدر کے الفاظ ہیں جن کے اپنے مشیر ہی نہیں برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، یورپی یونین اور کینیڈا کے لیڈر جی سیون اجلاس کے موقع پر ان سے ایران کے معاملے پر بات کرچکے تھے۔
پاکستان کی جانب سے اب صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کا حقدار تصور کرنا اور اس ایوارڈ کے لیے ان کے نام کی سفارش کیے جانے سے سفارتی میدان میں بھارت کلین بولڈ ہوگیا۔
مودی سرکار اول تو جنگ بندی ہی میں امریکی صدر کا کردار ماننے کو تیار نہیں تھی، سونے پہ سہاگہ صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پرثالثی کی جو بارہا پیشکش کی ہے اس سے پوری دنیا میں یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر ابھرا اور اب یہ بات ہمیشہ تاریخ میں درج رہے گی کہ مسئلہ کشمیر کس قدر اہمیت کا حامل رہا ہے کہ پاکستان نے اس کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنیوالے امریکی صدر کو امن کا پیامبر مانا۔
ایک سفارتی حلقے نے اس نمائندے کو بتایا کہ عوامی سطح پر ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ پاکستان نے صدر ٹرمپ کے سوا کسی بھی امریکی صدر کو نوبیل امن انعام کیلیے سفارش کی ہو۔
یقیناً جب فیلڈ مارشل نے پاکستانی کمیونٹی سے واشنگٹن میں خطاب کے موقع پر کہا تھا کہ آئندہ چند روز میں کئی اہم واقعات رونما ہوں گے تو شاید یہ پیشرفت بھی ہونے والی تھی۔
پاک بھارت جنگ کے تناظر میں اس پیشرفت کو دیکھیں تو پاکستان نے بھارت کو اُڑا کر رکھ دیا ہے۔ وزیرخارجہ اسحاق ڈار جو ماضی میں وزیرخزانہ کی حیثیت سے اپنے غیرمعمولی کردار کی وجہ سے جانے جاتے رہے ہیں، پچھلے چند ماہ میں انہوں نے سفارتکاری کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ وہ جہاں گئے، ان ممالک کو پاکستان کے مؤقف پر قائل کرلیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی قیادت میں امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین بھیجے گئے وفد نے بھی بھارت کا باجا بجادیا۔ واشنگٹن میں تقریب کےدوران بلاول بھٹو کے ساتھ مباحثہ میں موجود امریکا کی اہم شخصیت نے بھی سب کے سامنے تسلیم کیا کہ بھارت پہلگام واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے الزام کے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
پاکستان پر دہشتگردی کا الزام تھونپنا بھارت کیلیے لاکھ آسان ہو، پچھلے چند ماہ میں امریکی جنرل بھی مان رہے ہیں کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان اہم شراکت دار ہے۔ خود صدر ٹرمپ بھی کابل دھماکے میں امریکیوں کی موت کے ذمہ دار داعش کے دہشتگرد کو گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کرنے پر پاکستان سے اظہار تشکر کرچکے ہیں۔
دیکھا جائے تو عشروں بعد پاکستان دہشتگردی کے الزامات کا سامنا کرنے سےنکلا ہے اور دنیا پر حقیقت کھلی ہے تو بھارت اب اس دلدل میں دھنسنا شروع ہوا ہے۔
ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث بھارت کیخلاف کینیڈا کی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے۔بھارت کے وزیراعظم کو شرمندہ کرنے کیلیے یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے لائی گئی جب نریندر مودی کینیڈا کے وزیراعظم سے ملاقات کررہے تھے۔
دوسری جانب پاکستان ہے جو سفارتی محاذ پر ہر گزرتے لمحے چھکے چوکے مار رہا ہے۔
نام کی سفارش اپنی جگہ نوبیل امن انعام کے حقدار کا چناؤ ناروے کی پانچ رکنی نوبیل کمیٹی کرتی ہے۔ یہ نوبیل کمیٹی ایوارڈ کے حقدار تصور کی جانیوالی شخصیات کے نام ہر سال ستمبر میں وصول کرنے کی تیاری کرتی ہے اور نام کی سفارش کیلیے یکم فروری کی ڈیڈ لائن ہوتی ہے۔
شخصیات کی شارٹ لسٹنگ فروری اور مارچ میں کی جاتی ہے جس کے بعد مارچ سے اگست تک ان چُنیدہ شخصیات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اکتوبر میں نام کا فیصلہ کرکے اس شخصیت، شخصیات یا اداروں کے نام کااعلان کردیا جاتاہے جبکہ ایوارڈ دس دسمبر کو اوسلو میں دیا جاتا ہے۔
امن انعام کیلیے صدرٹرمپ کے نام کا فیصلہ کرکے پاکستان نے اپنا فرض ادا کردیا، اب بھارت کو چاہیے کہ پاکستان کی پیروی کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیرمعمولی کاوشوں کا اعتراف کرے، مذاکرات کی میز پرآئے اور مسئلہ کشمیر حل کرے کیونکہ وزیراعظم شہبازشریف کی حکومت جنگ بڑھانا چاہتی تو پاکستان چاروں شانے چت پڑے بھارت سے اگلے پچھلے سارے حساب بے باک کرلیتا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔