پاکستان

ضیاء چشتی کیس: ٹی آر جی پاکستان کی انتظامیہ نے دھوکہ دہی سے کام کیا: سندھ ہائیکورٹ

ضیاء چشتی کیس: ٹی آر جی پاکستان کی انتظامیہ نے دھوکہ دہی سے کام کیا: سندھ ہائیکورٹ
یہ مقدمہ ٹی آر جی پاکستان کے سابق سی ای او اور بانی پاکستانی امریکن ضیا چشتی نے  کیا تھا—فوٹو: ضیاء چشتی فائل

سندھ ہائی کورٹ نے ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے فنڈ منیجر پائن برج کو 150 ملین ڈالر کے فراڈ میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی آر جی پاکستان کی موجودہ انتظامیہ نے دھوکہ دہی سے کام کیا۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عدنان اقبال چوہدری نے 52 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ ٹی آر جی پاکستان کی انتظامیہ دھوکے سے کام کررہی تھی، برمودا میں واقع گرین ٹری ہولڈنگز کی ٹی آر جی کے حصص کی خریداری غیر قانونی تھی۔

عدالت نے ٹی آر جی کو فوری طور پر بورڈ کے انتخابات کرنے کی ہدایت کی۔یہ بورڈ کے انتخابات 14 مئی 2025 سے موجودہ انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر رکے ہوئے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے سے میں گرین ٹری ہولڈنگز کو ٹی آر جی پاکستان لمیٹیڈ کو ٹیک اوور کرنے کی کوشش کو روک دیا۔

فیصلے میں قرار دیا کہ گرین ٹری کی جانب سے حاصل کردہ تقریباً 30 فیصد حصص کی خریداری ٹی آر جی کے اپنے فنڈز سے غیر قانونی طور پر کی گئی، جو کمپنیز ایکٹ 2017 کے سیکشن 86(2) کی خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ یہ مقدمہ ٹی آر جی پاکستان کے سابق سی ای او اور بانی پاکستانی امریکن ضیا چشتی نے ٹی آر جی پاکستان، ٹی آر جی انٹرنیشنل اور ٹی آر جی انٹرنیشنل کی مکمل ملکیت والی شیل کمپنی گرین ٹری لمیٹیڈ کے خلاف کیا تھا۔

مقدمہ اس تنازع کے گرد تھا کہ شیل کمپنی گرین ٹری لمیٹڈ ضیا چشتی کے سابق پارٹنر محمد خیشگی، حسنین اسلم اور پائن برج انوسٹمنٹس کو کنٹرول دینےکیلئے دھوکہ دہی سے ٹی آر جی پاکستان کے فنڈز سے ٹی آر جی کے حصص خرید رہی تھی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق، 2021 سے شیل کمپنی گرین ٹری نے تقریباً 30 فیصد حصص خریدے جو کہ ٹی آر جی کے اپنے 80 ملین ڈالر استعمال کرتے ہوئے حاصل کیے گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹی آر جی پاکستان کے ڈائریکٹرز نے کمپنی کے اثاثے آف شور کمپنیز، ٹی آر جی انٹرنیشنل اور گرین ٹری کے ذریعے حصص خریدنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی جو کہ اقلیتی شیئر ہولڈرز کے لیے نہ صرف دھوکہ دہی پر مبنی بلکہ استحصالی اقدام قرار دیا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے گرین ٹری کی جانب سے ٹی آر جی کے مزید 35 فیصد حصص خریدنے کی کوشش کو بھی غیر قانونی قرار دیا، کیونکہ یہ پیشکش بھی ٹی آر جی کے ہی 70 ملین ڈالر کے استعمال سے کی جا رہی تھی۔

کیس کے حقائق کےمطابق چیئرمین ٹی آر جی پاکستان محمد خیشگی اور سی ای او، ٹی آر جی پاکستان حسنین اسلم 150 ملین ڈالر فراڈ کے ماسٹر مائنڈ تھے۔

انہوں نے یہ عمل ہانگ کانگ میں واقع فنڈ منیجر پائن برج کے ٹی آر جی پاکستان کے بورڈ کیلئے 2 نامزد افراد مسٹر جان لیون اور مسٹر پیٹرک میک گینس کے ساتھ مل کر کیا۔

عدالتی دستاویز کے مطابق خیشگی، اسلم، لیون اور میک گینس نے گرین ٹری کے نام سے ایک شیل کمپنی قائم کی جسے خفیہ طور پر کنٹرول کیا جاتا۔چاروں افراد نے ٹی آر جی پاکستان کے حصص خریدنا شروع کردیے تاکہ لگے یہ کہ گرین ٹری ٹی آر جی پاکستان کے فنڈز خود استعمال کر رہی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چاروں افراد ایک فیصد سے بھی کم کا مالک ہونے کے باوجود کمپنی کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے۔

یاد رہے کہ ضیا چشتی 2021 میں ایک سابق ملازمہ کی طرف سے جنسی الزامات لگائے جانے کے بعد مستعفی ہوکر ٹی آر جی کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔

برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے ضیا ءچشتی پر جھوٹے الزمات لگانے سبب 13 مضامین میں معافی مانگی اور قانونی اخراجات و ہرجانہ بھی ادا کیا۔

اب خیال ہے کہ ٹی آر جی کے انتخابات کے بعد ضیا چشتی ٹی آر جی پاکستان کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔

ضیا چشتی اور ان کا خاندان 30 فیصد حصص کا ملک ہونے کے سبب سب سے بڑا شئیر ہولڈر ہے۔ ٹی آر جی کے مسلسل خبروں میں رہنے کے سبب اس کے حصص کی قیمتوں میں 8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

مزید خبریں :