بلاگ
14 اپریل ، 2017

شہسوار چغتائی کا انصاف اور مؤرخین کی ناانصافی

شہسوار چغتائی کا انصاف اور مؤرخین کی ناانصافی

شاہان مغلیہ میں نورالدین محمد جہانگیر کا مقام عدل و انصاف اور ان کی خود نوشت سوانح عمر ــ’’تزک جہانگیری‘‘ کے حوالے سے ممتاز ہے، دانائے راز حضرت علامہ اقبال شہنشاہ جہانگیر کو ان کے عدل و انصاف کی وجہ سے شہسوار چغتائی کہتے ہیں۔

دنیا میں ایسے کتنے شہنشاہ گزرے ہیں جو عدل و انصاف کے حوالے سے معروف ہیں، ان چند ناموں میں جہانگیر کا نام نمایاں ترین ہے، عدل جہانگیری، جہانگیر کا انصاف، زنجیر عدل جیسے الفاظ ضرب و مثل ہیں، ایک طرف جہانگیر کا یہ ضرب و مثل انصاف ہے تو دوسری طرف ہمارے چند نام نہاد روشن خیال مؤرخین کی ان سے روا رکھی جانے والی ناانصافی ہے۔

زمانے نے جن لوگوں کو ان کا صحیح مقام عطا نہیں کیا ان میں سے ایک جہانگیر بھی ہیں، اگر ان کو شہنشاہِ ہند کی بجائے شاعری اور ادب کے حوالے سے پڑھایا جاتا تو ان کا مقام اتنا بلند ہوتا کہ برصغیر پاکستان و ہند بجا طور پر ناز کرتا، اگر نیچرل سائنس کے محقق کی حیثیت سے شہنشاہ کے مقام کا تعین کیا جائے تو بھی وہ ان علوم میں حیرت انگیز انکشافات کا مؤجد ہوتے۔

خطاطی اور مصوری کے پیشے کو اختیار کرتے تو بہت بڑے خطاط اور مصور ہوتے جو ان فنون لطیفہ کی باریکیوں پر گہری نظر بھی رکھتے، بہادر اتنے کہ ایک گولی سے شیر کا شکار کرلیتے، تن تنہا جنگلوں میں نکل جاتے اور ببر شیروں کا سامنا کرتے، اپنے وقت کے بہترین نشانہ باز اور ماہر تیغ و سناں اور ایک طرف علم و ادب، شاعری، مصوری کا یہ جنوںیہ ان ہمہ جہت مغل شہنشاہ کا مختصر تعارف ہے جنہیں یورپی اور ہندو مؤرخین نے ایک شرابی، کاہل اور عیاش شہنشاہ قرار دیاجبکہ ہمارے یہاں کے آندھی تقلید کرنے والے دانشوروں اور مؤرخین  نے انہی تعصب سے بھری کتابوں کے تراجم کر کے ہمارے اذہان کو آلودہ کر دیا۔

آج کے نام نہاد دانشور ٹی وی پروگراموں میں آ کر جب اپنی ہی تہذیب و تمدن کا مذاق اڑاتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، اگر ہم صرف تزک جہانگیری ہی کا مطالعہ کر لیں تو ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو گا، اس روزنامچے میں وہ پورے برصغیر کے چپے چپے کے حالات، پرندوںاور درندوں کی عادات، مختلف علاقوں کی تاریخ بیان کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں نت نئے تجربات سے روشناس کرا رہے ہیں تو کہیں زمیں کی پیمائش، کہیں شعر و شاعری کی محافل بپا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں اور  خود بھی طبع آزمائی فرما کر بڑے بڑے جغادریوں سے داد و تحسین وصول کر رہے ہیں۔

علم حیوانات اور نباتات پر گویا بیش بہا معلومات کا خزینہ ہے جو ان کے قلم سے نکلنے کے لیے بے چین ہے، یہ علمی اور اس کے ساتھ ریاستی امور پر کڑی گرفت کہ چڑیا بھی پر نہیں مار رہی ذرا ان مؤرخین کی ناانصافی تو ملاحظہ کیجیے کہ ایسے شخص کو ایک کاہل اور شرابی حکمران کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، بھلا ایک شرابی کیوں کر اتنی بڑی سلطنت پر اپنی آہنی گرفت رکھ سکتا ہے مگر دوسری طرف وسیع الظرف ہندو مؤرخ ڈاکٹر بینی پرشاد بھی تو ہیں جو بعد از تحقیق اعتراف کرتےہوئے کہتےہیں کہ ’’بلاشبہ جہانگیر تاریخ ہند کی جاذب نظر ترین ہستیوں میں سے ایک ہیں‘‘، وہ انصاف کے معاملے میں اپنی چہیتی ملکہ نور جہاں کا بھی لحاظ نہ کرتے تھے جو شہنشاہ کے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ پوری سلطنت مغلیہ پر حکومت کرتی تھیں۔

منشی محمد دین فوق کے مطابق اس شہنشاہ کے دور میں پوری سلطنت کا ہر حصہ جہانگیر کے مزاج کی تقلید میں ثقافت، تہذیب، معارف اور علوم و فنون کا مرکز بن گیا تھا، لاہور سے شہنشاہ کو بہت محبت تھی اس لیے لاہور کا بچہ بچہ ان دنوں شعر و ادب کا مزاج رکھتا تھا، علمی باتیں کرتا، اس دور کے کاریگر ہاتھوں سے ریشم رنگتے لیکن محفل کو اپنی رنگین بیانی سے بے خود کر دیتے وہ گلکاری کا پیشہ اختیار کرتے مگر ساتھ علم و ادب کے گلدستے سنوارتے، سپاہی میدان جنگ میں شمشیر زنی کرتے لیکن محفلوں میں اس کی زبان کی تیغ سب کو مسخر کر لیتی۔

حال ہی میں اس زمانے کا ایک گراں قدر نادر نسخہ دریافت ہوا ہے جس میں شہنشاہ کی مجالس کی تفصیل بیان کی گئی ہے، ان کو پڑھ کر شہنشاہ پر ایک شب بے دار صوفی کا گمان گزرتا ہے، شہنشاہ کو کتابیں مصور کروانے کا بھی بے حد شوق تھا، انہوں نے اس فن کو بہت فروغ دیا، اب وقت آگیا ہے کہ مسخ شدہ تاریخ کو اصل صورت میں نئی نسل تک پہنچایا جائے۔

صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر  پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں