15 نومبر ، 2017
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف دائر نیب ریفرنسز کی سماعت اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ہوئی، جہاں استغاثہ کے 2 گواہان نے بیانات ریکارڈ کروائے۔
دوسری جانب نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں منظور کرلی گئیں۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف دائر نیب ریفرنسز پر سماعت کی۔
سماعت کے موقع پر سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر عدالت میں پیش ہوئے اور بعدازاں مختصر پیشی کے بعد احتساب عدالت سے روانہ ہوگئے۔
احتساب عدالت میں آج ایون فیلڈ پراپرٹیز اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی 12ویں جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی 13ویں سماعت ہوئی۔
احتساب عدالت کی جانب سے 2گواہوں کمشنر اِن لینڈریونیو جہانگیر احمد اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی افسر سدرہ منصور کو طلبی کے سمن جاری کیےگئے تھے۔
گواہ سدرہ منصور کا بیان ریکارڈ
سماعت کے دوران ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں استغاثہ کی گواہ سدرہ منصور نے بیان ریکارڈ کروایا۔
گواہ سدرہ منصور نے اپنے بیان میں کہا کہ 18 اگست 2017کو وہ نیب لاہور میں تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوئیں اور نیب کی طرف سے مانگی گئی دستاویزات تفتیشی افسر کو پیش کیں، جس پر ان کے دستخط اور انگوٹھے کا نشان موجود ہے۔
سدرہ منصور کا کہنا تھا کہ نیب کو دی گئی دستاویزات میں کورنگ لیٹر اور حدیبیہ پیپر ملز کی 2000 سے 2005 تک کی آڈٹ رپورٹ شامل ہیں۔
جس پر شریف خاندان کے وکلاء امجد پرویز اور خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ یہ فوٹو کاپیاں ہیں اصل نہیں۔
جبکہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ان دستاویزات پر کمپنیز کی مہر یا سیل موجود نہیں ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نیب آرڈیننس کے مطابق فوٹو کاپیاں ہی ضروری ہوتی ہیں۔
جس پر گواہ سدرہ منصور نے کہا کہ 'جی نہیں ہے اور یہ ضروری بھی نہیں ہے'، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کاپی کمپنیز کی جانب سے ایس ای سی پی کو فراہم کی گئیں اور نیب کے تفتیشی افسر کو بیان میں بھی یہی بتایا تھا۔
خواجہ حارث نے اعتراض کیا کہ ان دستاویزات پر تو کمپنیز کا کورنگ لیٹر بھی نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے گواہ سے سوال کیا کہ دستاویزات کے لیے آپ کےخط پر کمپنیز کا جوابی خط کہاں ہے؟
گواہ سدرہ منصور نے کہا کہ وہ فائلز میں چیک کر لیتی ہیں۔
جبکہ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ابھی دستیاب نہ ہوا تو پھر پیش کردیں گے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نشاندہی کی کہ جمع کرائی گئی رپورٹ پر کوئی تاریخ بھی درج نہیں۔
جس پر گواہ سدرہ منصور نے کہا کہ یہ درست ہے کہ کورنگ لیٹر میں رپورٹ جمع کرانے کا ذکر نہیں مگر رپورٹ جمع کرائی۔
سدرہ منصور نے مزید کہا کہ نیب نے 15 اگست کو رکارڈ اور تفصیل مانگی تھی۔
گواہ جہانگیر احمد کا بیان ریکارڈ
بعدازاں العزیزیہ ملز ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ جہانگیر احمد نے بیان قلمبند کروایا۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا کبھی نوازشریف کے ٹیکس سے متعلق کسی نے سوال اٹھایا؟
جس پر گواہ جہانگیر احمد نے کہا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ یہ ریکارڈ پہلے آپ کے پاس نہیں تھا؟ آپ نے جو ریکارڈ پیش کیا، وہ آپ کو دیا گیا اور آپ نے پیش کیا؟
جس پر گواہ جہانگیر نے کہا کہ وہ زون 2 کے کمشنر رہے ہیں اور ریکارڈ براہ راست کبھی ان کے پاس نہیں رہا۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ میں ایف بی آر کا نمائندہ ہوں، یہ ریکارڈ ایف بی آر کے پاس تو تھا۔
بعدازاں استغاثہ کے مزید 4 گواہوں کو آئندہ سماعت پر طلبی کے سمن جاری کرتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت 22 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کروائی۔
نواز شریف کا اپنی درخواست میں کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ بیمار ہیں اور لندن میں ان کا کینسر کا علاج چل رہا ہے، لہذا 20 نومبر سے انہیں ایک ہفتے کے لیے حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔
مزید کہا گیا کہ نواز شریف کی غیر حاضری میں ان کے نمائندے ظافر خان عدالت میں پیش ہوں گے۔
دوسری جانب نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی طرف سے دائر درخواست میں بھی حاضری سے استثنیٰ اور نمائندہ مقرر کرنے کی استدعا کی گئی۔
مریم نواز کا اپنی درخواست میں کہنا تھا کہ ایمرجنسی میں عدم پیشی پر ان کے نمائندے جہانگیر جدون کو پیشی کی اجازت دی جائے۔
بعدازاں نواز شریف اور مریم نواز کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو ایک ہفتے جبکہ ان کی صاحبزادی کو ایک ماہ کے لیے استثنیٰ دے دیا گیا۔
احتساب عدالت سے روانہ ہونے سے قبل احاطہ عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ انہیں سزا دی نہیں جا رہی بلکہ دلوائی جارہی ہے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ فیصلے میں ایسے ریمارکس تھے جیسے ہمارے سیاسی مخالفین دیتے ہیں اور ایسا پیغام تھا کہ نواز شریف کو ہر قیمت پر سزا دینی ہے۔
سماعت کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے باہر سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے اور پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات تھی۔
لیگی رہنما سعد رفیق، مریم اورنگزیب اور مصدق ملک بھی فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس پہنچے جبکہ اس موقع پر لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی کے فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادوں حسن، حسین ، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔
جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا۔
سابق وزیراعظم نوازشریف 6 مرتبہ جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر 8 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوچکے ہیں۔
نوازشریف پر گذشتہ ماہ 19 اور 20 اکتوبر کو 3 ریفرنسز میں ان کے نمائندے ظافر خان کی موجودگی میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
رواں ماہ 8 نومبر کو نوازشریف کی 5ویں پیشی پر ان پر دوبارہ فردجرم عائدکی گئی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
دوسری جانب مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر پر19 اکتوبر کوفردجرم عائدکی گئی۔