07 دسمبر ، 2015
کراچی ...فاضل جمیلی ...بہت سے ضرب المثل اشعارایسے ہیں جو اپنے اصل تخلیق کار کے بجائےکسی اور کے نام سے مشہور ہوگئے ۔اسی طرح کا ایک شعر "نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا غبار ہوں... جوکسی کے کام نہ آسکے، میں وہ ایک مُشتِ غبارہوں"آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن یہ شعر دراصل مضطر خیرآبادی کی غزل کا مطلع ہے۔
اس بات کا انکشاف ان کے پوتے بھارتی نغمہ نگار جاوید اختر کی جانب سے ان کے غیرمطبوعہ کلام کی اشاعت سے ہوا ہے، جسے انہوں نے "خرمن" کے نام سے شائع کیا ہے۔مضطر خیرآبادی ، جاں نثار اختر کے والد تھے،لیکن ایک قادرالکلام شاعر ہونے کے باوجود ان کی زندگی میں ان کا کلام شائع نہ ہو سکا۔
نالہ کرنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
ادبی ویب سائٹ "ریختہ " کے مطابق مضطر خیرآبادی کا اصل نام سید محمد افتخار حسین، مضطر تخلصاور ’اعتبار الملک‘ ، ’اقتدار جنگ بہادر‘ خطاب تھا۔ وہ مولانا فضل حق خیرآبادی کے نواسے اور شمس العلماء عبدالحق خیرآبادی کے بھانجے تھے۔ محمد حسین ، بسملان کے بڑے بھائی تھےاوروہ امیر مینائی کے ہونہار شاگردوں میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست ٹونک کے درباری شاعر بھی تھے۔
جاوید اختر نے اپنے دادا مضطر خیرآبادی کے کلام کو پانچ جلدوں میں شائع کیا ہے اور اس کی رونمائی دہلی کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی ہوئی ہے۔اس موقع پر جاوید اختر کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے دادا کا کچھ کلام ممبئی میں کئی ایک فلیٹ تبدیل کرنے کے دوران اچانک مل گیا۔
اس کے بعد انہوں نے خیرآباد میں لکڑی کےٹوٹےہوئےدیمک زدہ بکسوں کو کھنگالا تو وہاں سے مضطر خیرآبادی کا مزید کلام دستیاب ہوا اور پھر مضطر بطور مجسٹریٹ جہاں جہاں تعنیات رہے ، وہاں کا سفر کیا ، لائبریریوں کو چھانا ۔ اس سفر میں جاوید اخترخیرآباد کے علاوہ لکھنؤ ، ٹونک ، رامپور ، اندور اور بھوپال گئے ، جہاں ذاتی لائبریروں سے بھی بہت سا موادمل گیا۔
واضح رہے کہ مضطرخیرآبادی کی ایک غزل "نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں ، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں" ، محمد رفیع، مہدی حسن اور حبیب ولی محمد کی آوازوں میںبہت مشہور ہوئی لیکن ہمشیہ مضطر کی بجائے بہادر شاہ ظفر کے نام سے منسوب رہی ۔ مضطر خیرآبادی کے کلام کی اشاعت کے بعد اب یہ مغالطہ دُور ہو جاناچاہیے۔
"پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چارپھول چڑھائے کیوں... کوئی آکے شمع جلائے کیوں ، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں" اس شعر کے بعد مطلع میں مضطرخیرآبادی نے اپنا تخلص ایک بار نہیں دوبار استعمال کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غزل حقیقت میں مضطر خیرآبادی ہی کی ہے۔
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں، نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں، جو اُجڑ گیا وہ دیار ہوں