22 ستمبر ، 2016
چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ شیشے پر پابندی کےعدالتی حکم بعد کرپٹ عناصر کی چاندی ہوگئی۔
سپریم کورٹ میں شیشہ نوشی ازخود نوٹس کیس کی چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کے دوران انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہوا، صرف یہ ہوا کہ اسلام آباد میں پہلے شیشہ کلبوں سے ایک لاکھ روپے ماہانہ لیے جارہے تھے ا وراب پانچ لاکھ روپے ماہانہ لیے جا رہے ہیں۔
بلوچستان اور کے پی کے ایڈووکیٹ جنرلز نے عدالت کوبتایاکہ بلوچستان اسمبلی اور کے پی کابینہ نے شیشے پر پابندی کا بل منظور کر لیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پابندی سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا، صرف یہ ہوا کہ پہلے شیشہ کلبوں سے ایک لاکھ لیتے تھے اب پانچ لاکھ ماہانہ لیاجارہاہے،عوامی مفاد کا معاملہ ہے، وفاق کی دلچسپی یہ ہے کہ ایک ماہ کا وقت خود مانگا اور کچھ نہیں کیا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ مقدمے کو 10 سال ہو گئے، وفاق کو یہ نہیں پتا کہ شیشہ مصنوعات درآمد ہونی چاہئیں یانہیں، اگر شیشہ درآمد کرنےمیں مالی فائدہ ہے تو کوکین سمیت دیگر منشیات کی اجازت بھی دے دیں۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بوٹ بیسن کراچی ڈی ایچ اے سائٹ پر اب بھی شیشہ چل رہا ہے، اپنی دلچسپی کے قوانین تو راتوں رات منظور اور آرڈیننس جاری کردیے جاتے ہیں، عوامی مفاد پر کوئی توجہ نہیں۔
سپریم کورٹ نے سیکرٹری کامرس اور سیکرٹری صحت کو آئندہ سماعت پر طلب کر تے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔