بلاگ
20 اکتوبر ، 2016

سیاسی جماعتوں میں جھوٹی جمہوریت

سیاسی جماعتوں میں جھوٹی جمہوریت

 جمہوریت پاکستان میں مضبوط نہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ خود مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت اور جمہوری اقدار کی کمی ہے، جس کے باعث سیاسی کلچر کی نمو آہستہ آہستہ رک گئی ہے، جس کے ذریعے کارکنوں اور رہنماؤں کے ہاتھ میں پارٹی کی قیادت آسکتی تھی۔

آج کی سیاست وراثتوں اور شخصیت کے گرد گھومتی ہے، بجائے اس کے پارٹیوں کو مضبوط کیا جاتا کہ وہ اپنے رہنماؤں کا انتخاب کرسکتیں۔ سیاسی جماعتیں اس وقت جمہوری نظام کا دفاع کرنے میں اپنا کیس ہار جاتی ہیں جب وہ خود اپنی جماعتوں میں یہ نظام تیار کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔

انتخابات کے نام پر جس طرح جماعتیں اپنے رہنماؤں کو منتخب کرتی ہیں، اس سے صرف معاشرے میں غیر جمہوری اقدار پیدا کرنے میں ہی مدد ملے گی۔ ایک حقیقی جمہوری کلچر کی غیر موجودگی میں منفی رجحانات نے دیگر اداروں کو بھی اپنے گرفت میں لے لیا ہے، مثلا ٹریڈ یونینیں اور طلبہ تنظیمیں، جن کی بحالی میں پارٹی مخلص دکھائی دیتی ہے۔

یہ دونوں ادارے صحت مند سیاسی ماحول کے لئے نرسری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا کنٹرول دانستہ 'چند ہاتھوں میں رکھنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے منگل کو ہمارے کمزور سیاسی کلچر میں مختلف مثال قائم کرنے کا موقع گنوا دیا۔ اس سے قطع نظر کہ پارٹی میں انتخابات کس طرح سے ہوئے، لیکن اگر وہ پارٹی کے سربراہ کے طور پر اپنا عہدہ خود چھوڑ دیتے اور کسی بھی دیگر سینئر رکن کا نام تجویز کرتے یا انتخابات کی اجازت دیتے تو وہ اچھی مثال قائم کر سکتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے سیاسی حریف عمران خان پر انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو جاتا۔

مسلم لیگ (ن) کے انتخابات کا اس پس منظر میں تجزیہ ضروری ہے. پارٹی میں نواز شریف کے بہت سارے قابل اعتماد ساتھی اور سینئر رہنما ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت بیشتر جماعتوں کو یقین ہے کہ پارٹی کو حکومت سے الگ رکھنا چاہیے لیکن عملا ایسا صرف کاغذ کی حد تک ہے۔

انتخابات کے علاوہ کیا مسلم لیگ ن کے اس اعلی ترین فورم پر کسی اور معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ الیکشن ہر سال منعقد ہونا چاہیے لیکن آخری بار 2013 میں منعقد ہوا تھا۔ کیا کوئی سالانہ رپورٹ یا اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی، کوئی اہم بحث ہوئی۔ جس طرح مسلم لیگ ن نے نواز شریف اور شہباز شریف کو منتخب کیا، اسی طرح مسلم لیگ (ق) نے بھی چوہدری پرویز الہی اور میاں ظہیر الدین کو صدر اور سیکرٹری جنرل کے طور پر بلا مقابلہ منتخب کیا۔

جلد ہی ہم پی پی پی اور پی ٹی آئی کے بارے میں بھی اسی طرح کی خبر سن گے۔ یہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کے لیے امتحان ہے کہ ان انتخابات اور طریقہ کار کا جائزہ لے۔ سیاسی جماعتیں اس وقت غیر جمہوری جماعتوں کے خلاف لڑ سکتے ہیں جب وہ خود مضبوط بنیادوں پر قائم ہوں۔

ن لیگ یقینی طور پر پارٹی کے اندر صحت مند جمہوری اقدار بنانے میں ناکام رہی۔ میاں صاحب کو خود کو 'اندرونی احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے مشرف کی فوجی حکومت کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے، وکلا تحریک میں تاریخی کردار ادا کیا اور ملک میں صحت مند سیاسی ماحول پیدا کیا۔ لیکن دوسری طرف انہیں پانامہ لیکس جیسے مسائل پر اپنی پارٹی کو مطمئن کرنا چاہیے تھا اور پارٹی کے اندر احتساب کے لئے خود کو پیش کرنا چاہیے تھا۔

لیکن یہ مسئلہ ن لیگ تک محدود نہیں ہے. نواز شریف کے روایتی حریف عمران خان کا بھی یہی معاملہ ہے. وہ 1996 ء میں پارٹی کے قیام کے آغاز کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کے صدر ہیں۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے آئین کی منظوری کے بعد بھی واحد پارٹی انتخابات 2013 میں عام انتخابات سے قبل منعقد ہوئے۔ الزامات اور جوابی الزامات کے باوجود یہ نئی تحریک انصاف کے مثبت آغاز تھا. پھر جب اس کے اپنے الیکشن کمیشن نے درخواستوں پر فیصلے دینا شروع کر دیے اور رہنماؤں میں سے کچھ کو نااہل قرار دے دیا تو عمران نے مداخلت کی جس کے نتیجے میں بالآخر تحریک انصاف کا الیکشن کمیشن تحلیل ہوگیا۔

اس کے سربراہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے پہلے استعفی دیا اور بعد میں پارٹی چھوڑ دی. اس کے بعد تحریک انصاف کے انتخابات کبھی نہ ہوئے۔ لیکن ایک اور چیئرمین الیکشن کمشن تسنیم نورانی نے بھی استعفی دے دیا۔ جس سے موجودہ تحریک انصاف کی قانونی حیثیت اور موزونیت کے بارے میں سوال پیدا ہوا۔ کیا عمران کو 'پاناما تحریک کی آڑ لینے کی بجائے، انتخابات کرانے چاہئیں۔ وہ ملک میں کیسے تبدیلی لا سکتے ہیں جب وہ جمہوری طریقے سے پارٹی میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔

جی ہاں، تحریک انصاف میں خاندانی وراثت کا کوئی امکان نہیں ، لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک شخص ہمیشہ چیئرمین رہے۔ پیپلزپارٹی کے کیس میں زیادہ بدترین صورت حال ہے۔ اگلے ماہ وہ یوم تاسیس منائے گی۔ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے، اس کی تاسیسی دستاویز اور آئین میں حکومت کو پارٹی سے علیحدہ رکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس شق کو لاگو نہیں کیا گیا۔

بھٹو جب جیل میں تھے تو انہوں نے سینئر وائس چیئرمین، مرحوم شیخ رشید احمد کو قائم مقام چیرمین بنانے کا کہا، لیکن پھر مؤخر الذکر کی درخواست پر بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔ ضیاء کے مارشل لاء کی وجہ سے انہوں نے بحران میں اچھی طرح پارٹی کی قیادت کی۔ لیکن پھر اسی طرح بینظیر بھٹو نے ہی انہیں کنارے لگادیا، جس پر بہت سے پارٹی رہنماؤں کو مایوس ہوئی۔ تاہم، پاکستان واپسی کے بعد بے نظیر نے ایک بار، 1987 میں پارٹی میں انتخابات کی کوشش کی لیکن، ان کے مشیروں نے انہیں خوفزدہ کردیا کہ پارٹی میں موجود 'ترقی پسند اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ لوگ ٹیک اوور کرلیں گے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی میں انتخابات کبھی نہیں ہوئے۔

لیکن جب 2002 میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر کو نااہل کرنے کی کوشش کی، تو پارٹٰ نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز تشکیل دی اور مخدوم امین فہیم اس کے صدر بنے۔ انہوں نے موت تک پارٹی کی قیادت کی، اور بھٹو خاندان یا پی پی پی سے کبھی بیوفائی نہ کی۔ یہ پی پی پی کے لئے موقع تھا، کہ اس عمل کو جاری رکھتی لیکن پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے انتخابات کی بجائے پی پی پی پی کے صدر اور شریک چیئرمین کے طور پر قبضہ کرلیا اور بلاول بھٹو چیئرمین بن گئے جبکہ فریال تالپور پی پی پی شعبہ خواتین کی صدر بن گئیِں۔

سب کچھ خاندان کے اندر۔ زندہ باد جمہوریت. انہوں نے چودھری اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن جیسے سینئر رہنماؤں کی تجاویز کو نظر انداز کیا کہ مستعفی ہوجائیں یا رہبر بن جائیں۔ جماعت اسلامی کی پارٹی انتخابات کے انعقاد میں بہت اچھی روایات ہیں لیکن اسی دوران اس کے امیر کے پاس 'آمرانہ اختیارات ہیں. اس کے ووٹروں کی تعدد محدود چالیس پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اس لیے انتخابات کرانا آسان ہے ۔

ہر کوئی اسکریننگ کے بغیر اس کا رکن نہیں بن سکتا ۔اس کے امیر کےپاس بے مثال طاقت ہے اور وہ لامحدود مدتوں کے لئے امیر رہ سکتا ہے۔ اور سوائے سید منور حسن کے دیگر تمام امیر کا دور طویل تھا. لیکن، 2013 ء کے انتخابات میں جماعت میں کچھ غیر معمولی ہوگیا۔ اس کے کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے کراچی شوری کے فیصلے کو نظر انداز کیا اور اعتماد کراچی میں انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔

اس پر جماعت اسلامی کے اراکین اور رہنماؤں کو بڑی تکلیف ہوئی۔ بعد ازاں، پارٹی نے تادیبی کارروائی تو کی لیکن بائیکاٹ کا جماعت پر منفی اثر پڑا. عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پارٹی انتخابات کرائے لیکن اسفند یار ولی نے دو مدتیں مکمل کرلیں اور
مستعفی ہونا چاہئے تھا، مگر وہ اور ان کی ٹیم نے پارٹی آئین میں ترمیم کر لی. میں نے ایک بار ایک انٹرویو میں پوچھا کیا وہ فیصلہ 'جمہوری تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ 'جنرل باڈی کا فیصلہ تھا۔ ایم کیو ایم کو آج جس بحران کا سامنا ہے، وہ بنیادی طور پر اسی طرح کے غیر جمہوری طرز عمل اور قائد تحریک کے پسند و ناپسند کو اہمیت دینے کی وجہ سے ہے ۔

یہ سچ ہے کہ سیاست میں مداخلت کے اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور 37 سالہ مارشل لاء کی وجہ سے پارٹی میں تقسیم ہوتی ہے جس کی وجہ مرکزی جماعتیں مداخلت کو چیک کرنے پر مجبور ہوتی ہیں، لیکن، اس سے پارٹی کی قیادت کے لیے قابل اعتماد ساتھیوں پر اعتبار نہ کرنے کا عذر نہیں ملتا۔ بدترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے۔ لیکن جعلی جمہوریت آمریت کی ایک اور شکل ہے اور یقینا جمہوریت کے طور پر قابل قبول نہیں ہے۔