15 دسمبر ، 2016
الوداع جنید جمشید، الوداع، پی آئی اے طیارے کے حادثے میں شہید جنید جمشید سفر آخرت پر روانہ ہوگئے، سسکیوں اور آہوں کے ساتھ، محبتوں اور دعاوٓں کے سائے میں کراچی کے دارالعلوم کورنگی میں سپردخاک کردیا گیا۔
ان کے عزیز و اقارب غم سے نڈھال رہے، مولانا طارق جمیل بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکے،دل دل پاکستان سے لہو کو گرمانے والے، قصیدہ بردہ شریف پرستاروں کو سنانے والے، نعتیہ کلام سے دلوں میں گھر کرنے والے ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گے، بہت یاد آئیں گے۔
زندگی کا انتہائی انجام موت اور جسم کا آخری ٹھکانہ قبر سہی، لیکن جس انداز میں جنید جمشید گئے، وہ بھلائے نہیں بھول رہا،درد کی یہ لہر ، 7 دسمبر کو آگ اور دھوئیں کی صورت، حویلیاں سے اُٹھی اور آناً فاناً اس نے پورے ملک کو اپنے حصار میں جکڑ لیا۔
اِک شخص جو اپنے ہر رنگ میں، ہرایک کو پیارا اور سب کا ستارہ تھا، اچانک گیا تو ہر ایک کی آنکھیں سنسان اور سب کے دِل ویران کرگیا۔
ہردلعزیز جنید جمشید کی میت، نماز جنازہ کیلئے پی این ایس شفا سے ڈیفنس کے گراؤنڈ لائی گئی تو وہاں مرحوم کے اہلِ خانہ،سول و عسکری عہدے دار، سیاسی جماعتوں کے رہنما، معروف کھلاڑی، فنکار اور ہزاروں کی تعداد میں شہری موجود تھے، اس موقع پر سیکیورٹی کے انتظامات پولیس اور رینجرز نے سنبھالے۔
بوجھل دِلوں کی تسلی کیلئے معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل نے مختصر خطاب بھی کیا،جلوس جنازہ میں مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی سمیت مختلف مذہبی شخصیات بھی موجود تھیں، نمازِ جنازہ مولانا طارق جمیل نے پڑھائی، اس کے بعد میت کو آخری آرام لے جایا گیا تو رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے۔
جنید جمشید کو اُن کی خواہش کے مطابق دارالعلوم کورنگی کے احاطے میں سپرد خاک کردیا گیا، مرحوم کے تین بیٹوں تیمور ، بابر، سیف اللہ، بھائی ہمایوں جمشید اور مولانا طارق جمیل نے میت کو لحد میں اُتارا، تدفین کے بعد مولانا طارق جمیل نے دعائے مغفرت بھی کرائی۔
اللہ کی امانت، اللہ کے سپرد، ایسے جنازے کسی کسی کے ہوتےہیں،جنید جمشید کو علماء، سیاسی و سماجی رہنماؤں، کھلاڑیوں اور فنکاروں نے آنسوؤں سے تر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
سب کا یہی کہنا ہے کہ جنید جانے کے باوجود کہیں نہیں گیا، اُس کی آواز اور اس کی یاد ہمارے درمیان موجود ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نعتیں سنانے اور دل دل پاکستان گانے والے کے سفرِ آخرت میں ہزاروں چاہنے والے ساتھ تھے، جو خلق خدا کی خدمت اور ہدایت کیلئے موت کے راستے پر چلا، وہ دِلوں میں امر ہو گیا،وطن کی مٹی نے اسے ماں کی طرح آغوش میں ہی نہیں لیا، بلکہ یہ بھی جتایا کہ جس نے اس مٹی کی عظمت کے قصیدے پڑھے، اور محبت کے گیت گائے، سب اُس کے گن گارہے ہیں۔
پرنور چہرے اور دھیمی مسکان کے مالک جنید جمشید کا آخری سفر مکمل ہوا، لیکن شہید کبھی مرا نہیں کرتے، ہر دم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں جھومنے والے جنید جمشیدکی نعتیں، ان کی یاد یں کبھی مدہم نہیں ہونے دیں گی،عشق حقیقی میں مبتلا جنید جمشید 7 دسمبر کو اس دنیا ئے فانی کو خیرباد کہہ گئے۔
گھر کے باہر چاہنے والے غم سے چُور قدموں کے ساتھ تعزیت کیلئے آتے رہے، یادِ ماضی اور جنید کی میٹھی باتیں دوستوں کو ستا رہی ہیں تو سیاستداں جنید جمشید کی موت کو عظیم سانحہ قرار دے رہے تھے۔
معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کی دوستی نے ہی جنید جمشید کو معروف نعت خواں اور ایسا مبلغ بنایا کہ جو لوگ ان کی سابقہ زندگی سے متاثر تھے، آج ان کی نعتوں کے سحر میں گم ہیں، نمازِ جنازہ سے قبل معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے موت کی حقیقت واضح کی۔
نمازِ جنازہ کیا تھی گویا تھوڑی سے جگہ میں دنیا امڈ آئی ہو، اہم سیاسی، سماجی اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنی دعائیں جنید جمشید کے آخری سفر میں ان کے ہمراہ کیں، شہید عاشق رسول کاجنازہ جو تھا، خوب نکلا۔
دنیا کے اس دودن کے سفر میں ہی جنید جمشید نے دارلعلوم کورنگی میں اپنی آخری آرامگاہ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، تدفین یہیں کی گئی، دنیا یاد کرے گی اس پاپ سنگر کو جس نے شہرت کے عروج پر دنیا کی رنگینیوں کو خیرباد کہا اور اللہ کی راہ میں سب قرباں کیا،مشہورتب بھی تھے اور مشہور آج بھی ہیں، الوداع جنید جمشید الوداع۔