پاکستان
02 فروری ، 2017

ایڈیٹر ان چیف جنگ ، جیو گروپ میر شکیل الرحمٰن پر اے آر وائی کے الزامات جھوٹے ثابت

روزنامہ ’جنگ ‘اور جیو گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن پر اے آر وائی کی جانب سے لگائے جانے والے تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ ان میں پاکستان کا غدار، انڈین ایجنٹ، را کا ایجنٹ، امریکی ایجنٹ، سی آئی اے کا ایجنٹ اور موساد کا ایجنٹ ہونے اور مذہب کی توہین کرنے کے الزامات شامل تھے ۔ یہ الزامات لگانے والے اے آر وائی نے برطانوی عدالت میں تسلیم کرلیا ہےکہ اس کے پاس ان الزامات کے کوئی ثبوت نہیں۔

الزامات ثابت نہ ہونے پر عدالتی حکم کے تحت برطانیہ میں اے آر وائی کے تمام چھ چینلز بند کردیئے گئے۔

پاکستان میں انتشار پھیلانے اور پیسے لے کرغیر ملکی ایجنڈے کو فروغ دینے اور اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے جیسے الزامات ثابت کرنے میں اے آر وائی ناکام ہوگیا۔

اے آر وائی نے جھوٹا الزام لگایا کہ ایڈیٹر ان چیف جنگ اور جیو گروپ ریاست کےغدار اور دشمن ہیں جنہوں نے ملک کو دھوکا دیا اور دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ساز باز کی ۔

اے آروائی ان الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا اور اے آر وائی نے مان لیاکہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔

بدنیتی سے حب الوطنی اور مذہب کا نام استعمال کر کے جھوٹے ، من گھڑت الزامات لگا کر جنگ جیو اور اس کے ایڈیٹر انچیف کو متنازعہ بنانے کے گرینڈ پلان کو شکست فاش ہو گئی ۔

لندن ہائی کورٹ میں ایڈیٹر ان چیف جنگ اور جیو گروپ کو ہتک عزت کے مقدمے میں تاریخی فتح حاصل ہوئی اور انھوں نے اے آر وائی کے خلاف تمام 24 دعوے جیت لیے۔

اے آر وائی نے تسلیم کر لیا کہ اس کے الزامات جھوٹے ہیں اور ان کا دفاع نہیں کیا جا سکتا جس کے بعد جنگ ، جیو اور اس کے ایڈیٹر انچیف تمام الزامات سے بری کر دئیے گئے۔ اے آر وائی جھوٹا ثابت ہوگیا، عدالت نے اے آر وائی کو 40 کروڑ روپے ہرجانہ اور خرچہ ادا کرنے کا حکم دیا تاہم اے آر وائی برطانوی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد میں ناکام رہا جس پر برطانوی ریگولیٹر آفکام نے برطانیہ میں اے آر وائی کے تمام چھ چینل بند کر دئیے ہیں۔

اے آر وائی نے برطانوی عدالت میں کہا کہ اس نے جنگ اور جیو پر غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں سے پیسے لینے کا الزام اپنے پر جیو کے مبینہ حملے کے جواب میں لگایا تھا۔ اے آر وائی نے صفائی پیش کی کہ اس کی تمام نشریات محض رائے تھیں جن کے درست ہونے پر اسے خود بھی یقین نہیں۔ تاہم عدالت نے اے آر وائی کا یہ موقف مسترد کردیا۔

گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ ، بلوچستان ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ کوئٹہ نے بھی جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو توہین مذہب کے الزام سے کافی عرصے پہلے بری کردیا تھا تاہم اے آر وائی نے یہ خبر ایک بار بھی نشر نہیں کی۔

اے آر وائی نے سب سے زیادہ یہ الزام لگایا کہ میر شکیل الرحمٰن نے پاکستان کی سلامتی، نظریات اور اداروں بشمول عدلیہ اور فوج کو چیلنج کیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اے آر وائی کے پاس ان الزامات کے کوئی ثبوت نہیں۔

اے آر وائی نے گواہی کے لیے سوشل میڈیا کی غیر مصدقہ خبروں کی چھوٹی سی فائل پیش کی جو عدالت نے مسترد کردی۔ میر شکیل الرحمٰن نے الزامات رد کرنے کےلیے 30 کلو دستاویزات پر مشتمل جواب داخل کرایا اور ان الزامات کا بھی جواب دیا جو اے آر وائی کی فائل میں بھی موجود نہیں تھے۔

برطانوی عدالت کے فیصلے کے مطابق اے آر وائی جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو 26 کروڑ روپے(دوملین پاونڈ) ادا کرے گا۔اس رقم میں ہرجانہ ، جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف کے قانونی اخراجات ، کامیابی کی فیس اور انشورنس پریمیئم شامل ہے۔

اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اے آر وائی کو 30 لاکھ پاونڈ(یعنی 40کروڑ روپے) کا نقصان ہوگا جس میں اس کے قانونی اخراجات بھی شامل ہیں۔

برطانیہ میں اے آر وائی کے چیف آپریٹنگ آفیسر فیاض غفور نے برطانوی عدالت میں جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف کی قانونی ٹیم کے سوالات کا جواب دینے سے بچنے کے لیے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہونے سے بھی انکار کر دیا۔

اے آر وائی نے الزام لگایا تھا کہ’ امن کی آشا‘ مہم معاوضے کے عوض ایک بھارتی ایجنڈا تھا تاہم اے آر وائی نے کہا کہ اس کے پاس اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت نہیں اور اس نے عدالت میں اس الزام کا کوئی دفاع بھی نہیں کیا۔

جج کے مطابق اے آروائی نے مدعا علیہ کو نقصان پہنچانے کے لیے 389 مرتبہ توہین مذہب کا الزام لگایا اور زہر اگلا،جج نے کہا کہ یہ بات سمجھنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں کہ اے آر وائی کا واضح مقصد جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف کے خلاف نفرت پیدا کرنا تھا۔

جج نے اعتراف کیا کہ اے آر وائی نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے حامد میر پر حملے کے بعد کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ اے آر وائی اور دیگر کی جانب سے بدنیتی پر مبنی مہم چلائے جانے کے بعد پاکستان بھر میں جنگ اور جیو گروپ پر حملوں کی مہم شروع ہوئی۔

گروپ کے لیے کام کرنے والے متعدد صحافیوں پر فرائض کی ادائیگی کے دوران حملے ہوئے۔ کالعدم انتہا پسند تنظیموں نے جنگ اور جیو کے ملازمین کو دھمکیاں دیں اور نقصان پہنچایا۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر جنگ اور جیو کی قیادت اور ملازمین کے خلاف بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا کیا گیا، برطانیہ اور پاکستان میں ان پر جسمانی حملے ہوئے، ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے اہل کانہ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔

کیبل آپریٹرز سے جیو گروپ کے چینلز کو بند کرنے یا آخری نمبروں پر ڈالنے کو کہا گیا، اشتہاری کمپنیوں کو جیو اور جنگ گروپ پر اشتہار دینے سے منع کردیا گیا۔

ان تمام معاملات سے متعلق مقدمات تین برس سے پاکستان کی مختلف عدالتوں میں بھی زیر سماعت ہیں۔آج پھر انھی جھوٹے الزامات کے ساتھ اللہ رسول کا نام لے کر اسی پرانے اسکرپٹ کے ساتھ ایک بار پھر مہم شروع کی جا چکی ہے۔

 

مزید خبریں :