بلاگ
31 مارچ ، 2017

کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان

کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان

ڈاکٹر عاصم حسین کی آخری دو مقدمات میں ضمانت، انور مجید کیس، شرجیل میمن کی واپسی، عزیر بلوچ کے معاملے میں خاموشی، نثار مورائی اور منظور کاکا کے انجام کی بے یقینی، بڑی کھیپ میں اسلحہ پکڑے جانے کا معمہ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے 16 ہزار فائلوں کا لاپتہ ہونا، یہ چند ایسے بڑے مقدمات ہیں جو انجام کو نہیں پہنچے اور تشنہ طلب ہی ہیں۔ بلکہ کراچی آپریشن پر مرکوز توجہ سیاست کی جانب منتقل ہوگئی۔

درحقیقت غلطی کہاں ہوئی؟ گزشتہ تین سال کے دوران 16 ہزار افراد گرفتار ہوئے، 7 ہزار ہنوز زیرحراست ہیں، لیکن سوائے چند سو مقدمات کے باقی کیسز کے بارے میں مشکل ہی سے کوئی معلومات ہیں۔

کراچی آپریشن ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی دونوں کے معاملے میں سیاسی ہوگیا کیونکہ بعض مقدمات میں مناسب شہادتیں نہ ہونے کے باوجود عجلت سے کام لیا۔ جے آئی ٹی لیکس، وڈیو بیانات اور حتی ٰکہ اپیکس کمیٹی رپورٹس کو افشاء کرکے ہیجان خیزی کو ہوا دی گئی جس نے پورے ایشو کو سیاست زدہ کر دیا۔ نتیجہ ضمانتوں پر رہائی یا عدم ثبوت پر برّیت کی صورت میں نکلنے لگا۔

یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ ایک ملزم کی ضمانت پر رہائی کو برّیت سے تعبیر کیا گیا کیونکہ اکثر مقدمات میں استغاثہ نے پیروی ہی نہیں کی۔ پرویز مشرف سے ماڈل گرل ایان علی سے ڈاکٹر عاصم حسین تک یہ چند مثالیں ہیں۔

دو سال قبل اس وقت کے ففتھ کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار جو اب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مشہور زمانہ خطاب میں کراچی کی صورتحال کا پوسٹ مارٹم کیا تھا جسے حکومت سندھ کے خلاف ’’فرد جرم‘‘ تصور کیا گیا۔

اسی طرح سندھ رینجرز کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر نے کراچی سے اربوں روپے غیرقانونی طور پر جمع کئے جانے کا انکشاف کیا تھا۔ اس حوالے سے رینجرز کی پریس ریلیز میں بلاول ہائوس کا نام بھی لیا گیا چونکہ ایسے ریمارکس پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، نتیجتاً پھر تنازعات نے جنم لیا۔

بڑے لوگوں پر مقدمات کاضرورت سے زیادہ شور اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے لئے پشیمانی کا باعث ہوا۔ ایسے مقدمات کا عدالتوں کے بجائے میڈیا میں زیادہ ذکر رہا۔ سیاسی جماعتوں کو پھر موقع مل گیا کہ وہ مقدمات کو سیاسی انتقامی کارروائیاں قرار دیں۔

المیہ یہ ہے کہ اس کا فائدہ کرپٹ اور دہشت گرد مافیا نے ہی اُٹھایا۔ کراچی فشریز کیس جس میں حکام نے دہشت گردی میں مالی معاونت، اسلحہ اسمگلنگ، ٹرالرز کے ذریعہ اسلحے کی منتقلی اور منی لانڈرنگ کو تقریباً ثابت کر دیا تھا جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اور لیاری گینگ سے متعلق ملزمان کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں لیکن کسی پیش رفت کے بغیر ان کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ کرپشن کے ساتھ بدعنوان حکام کے تقرر و تبادلے بدستور جاری ہیں۔

ڈاکٹر عاصم حسین کا کیس شروع ہی سے عجلت میں بنایا گیا دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ سابق صدر آصف علی زرداری کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھڑک اُٹھنے کے بعد قائم کیا گیا تھا۔

زرداری سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے تک جس طرز سے عاصم حسین کو گرفتار کیا گیا، اس پر اپنے سنگین شبہات کا اظہار کیا تھا۔ ان کے خلاف کیسز میرٹ پر ہونے کے بھی سوالات اُٹھے۔ چند مہینوں ہی میں دیگر بڑے مقدمات میں جیسا ہوتا آیا ہے، عاصم حسین کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

اگر انہیں ’’جیٹ بلیک‘‘ درجہ میں رکھا گیا تھا تو یہ تمام وی آئی پیز بغیر اجازت ان سے کیسے ملتے رہے؟ایف آئی اے اور رینجرز کی جانب سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے ہزاروں فائلیں اُٹھا کر لے جانے کو دو سال کا عرصہ ہوگیا۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ ایف آئی اے نے مذکورہ فائلیں قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کر دیں۔ آج تک کسی کو نہیں معلوم کہ ان انکوائریز اور کیسز کا کیا انجام ہوا۔

عزیر بلوچ کے پیپلزپارٹی کی قیادت سے مبینہ تعلق کا بھی بڑا شور مچایا گیالیکن وہ جیل ہی میں زندگی کے مزے لے رہا ہے۔ ایم کیو ایم رہنمائوں پر بھی کچھ مقدمات بدانتظامی اور بھونڈے پن کی منفرد مثالیں ہیں۔

کراچی کی تاریخ میں اسلحہ کی سب سے بڑی کھیپ پکڑے جانے کا مقدمہ مزید تحقیقات کے بغیر ختم کر دیا گیا۔ پہلے تو پولیس نے اس کا کریڈٹ لیا اور انعام کا بھی اعلان کیا لیکن بعدازاں ثبوت فراہم نہ کئے جانے کا دیگر اداروں پر الزام لگایا۔ 22

اگست 2016ء کو الطاف حسین کے قابل اعتراض خطاب کے حوالے سے مقدمات بھی انجام کو نہیں پہنچے۔ ڈاکٹر حسین ظفر عارف، مومن خان اور چند دیگر کے مقدمے کو بھی ان کی سیاسی فکر سے آگے دیکھنا چاہئے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو جس طرح سے گرفتار اور بعدازاں عدالت میں پیش کئے بغیر رہا کر دیا گیا اس سے سیاسی ترجیحات کا اظہار ہوتا ہے جو وفاداریاں تبدیل کرانے میں استعمال کی جاتی ہیں۔

ضمانت کرانا ہر ملزم کا قانونی اور عدالتی حق ہے لیکن جب یہ عمل کسی سست روی کا باعث بنے تو پھر سنجیدہ سوالات اُٹھتے ہیں لہٰذا وقت ہے کہ سندھ یا مرکز میں اپیکس کمیٹی کراچی آپریشن کا قریبی اور باریک بینی سے جائزہ لے۔

انوسٹی گیشن سے پراسیکیوشن، پولیس سے رینجرز اور ایف آئی اے سے نیب ذمہ داریاں ایک سے دوسرے پر منتقل کرنے کے بجائے توجہ بلاامتیاز دہشت گردوں، انتہاپسندوں اور بھتہ خوروں پر ہونی چاہئے۔

یہ دُرست ہے کہ دہشت گردوں کو ہیرو، غدّاروں کو محبِّ وطن اور کرپٹ کو کلین کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہئے لیکن انہیں اللہ کے واسطے عدالتوں میں تو مجرم ثابت کرایا جائے۔ یہ جاننا عوام کا حق ہے کہ یکے بعد دیگرے رہائی اور مراعات کیسے ملنے لگی ہیں۔ تمام مقدمات کو کم سے کم وقت میں اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

اب بھی سرنگ کی دوسری جانب روشنی کی کرن ہے لہٰذا اُمیدوں کو دَم توڑنے نہ دیا جائے۔ شاید ’’ری ڈریس اینڈ گریونس کمیٹی‘‘ کی اب بھی ضرورت کی یہی وجہ ہے۔