01 اپریل ، 2017
پاکستان کا اسلامی فوجی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ خوش آئند ہے گو کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف بنا ہے لیکن تاریخ، سماجیات اور عالمی امور کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے نزدیک اس کےعالمی منظر نامے پر بہت دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
دانائے راز حکیم الامت علامہ اقبال امت مسلمہ کے اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے، ان کے فلسفے اور کلام میں اسلام کے آفاقی پیغام کا اظہار ملتا ہے بعض اشعار تو گویا قران کی کسی آیت کا ترجمہ معلوم ہوتے ہیں، خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر اقبال بہت آزردہ تھے، ان کے دکھ کا اظہار ہمیں اس شعر میں ملتا ہے
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
اقبال جیسے بلند پایہ مفکر مغرب کے شاطر فلسفے کی تباہ کاریوں کے مضمرات کو اپنی بے پناہ فراست سے سمجھ چکے تھے، انہیں اندازہ تھا کہ نیشنلزم کا نعرہ صرف مسلم امہ کو نقصان پہنچائے گا کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب امت کےاسلامی تصور کا احاطہ نہیں کر سکتا، قومیت یا نیشنلزم کا تصور مغرب نےاس وقت دیا جب بڑی بڑی سلطنتیں ختم ہو رہی تھیں اور اس کا سب سے زیادہ نقصان خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم امہ کو ہوا.جس کے سماجی، ثقافتی، نفسیاتی اثرات بہت گہرے ہیں۔
آج ایک سوال اٹھتا ہے کہ عرب نیشنلزم نے عربوں کو کیا دیا، ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ اب کوئی محمد بن قاسم کسی بیٹی کی پکار پر کیوں نہیں آتا تو جناب کیسے آئے؟ محمد بن قاسم اب یا تو سوڈانی ہے یا ترکی یا پاکستانی، وہ کیوں کسی دوسرے ملک کے پھڈے میں اپنی ٹانگ اڑائے یا کسی دوسرے کی بیٹی کی پکار سنے گا، یورپ نے کرنسی ختم کر کے اپنے ہی قومیت کے فلسفے کی نفی کر کے یورپی یونین بنائی، دلچسپ امر یہ ہے کہ ویزے کی پابندی ایک دوسرے کے لیے ختم کر کے امہ کے اسی وسیع تر مفہوم کو اختیار کیا جو اسلام کا طرۂ امتیاز ہے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مخاطب تو مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے ایک دوسرے سے محبت و تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی و معاونت کا سلوک کرنے میں ایسا پائے گا جیسا کہ بدن کا حال ہے کہ جب بدن کا کوئی عضو دکھتا ہے تو بدن کے باقی اعضاء اس ایک عضو کی وجہ سے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں اور بیداری و بخار کے تعب و درد میں سارا جسم شریک رہتا ہے۔
اس ارشاد کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی صفت اتحاد و یگانگت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی جذبہ یا تعلق ایسا ہو سکتا ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کو رنگ و نسل کی تفریق،زبان و کلچر کے اختلاف اور ذات پات کی تفرقہ بازی سے نجات دلا کر ایک برادری اور اتحاد و یگانگ کی ایک لڑی میں پرو سکتا ہے تو وہ صرف ایمان و اسلام کا تعلق ہے، چنانچہ اہل ایمان جہاں بھی ہوں جس رنگ و نسل سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان کے درمیان کوئی انسانی اونچ نیچ نہیں ہو سکتی تمام مسلمان ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں، اگر کڑیاں الگ الگ ہو جائیں تو زنجیر ٹوٹ کر رہ جائے گی، اسی طرح ہم مسلمان اگر تفرقہ بازی کا شکار ہو جائیں جو کہ ہم ہو چکے ہیں اور رنگ و نسل، زبان و کلچر اور ذات پات کے دائروں میں سمٹ جائیں تو ہمارے ملی وجود اور اجتماعی طاقت کو انتشار کا گھن لگ جائے گا اور جب ہماری اجتماعی حیثیت مجروح ہو کر غیر مؤثر ہو گی تو شخصی و انفرادی وجود بھی نہ صرف بے معنی ہو جائے گا بلکہ ہر شخص مختلف آفات کا شکار ہو جائے گا۔
اسی حقیقت کو اس ارشاد گرامی میں ظاہر کیا گیا ہے اور تمام مسلمانوں کو ایک بدن کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس طرح جب بدن کا کوئی ایک عضو دکھتا ہے تو سارا بدن دکھتا ہے اور محض ایک عضو میں تکلیف ہونے سے پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اسی طرح ہم مسلمان بھی ایک جسم کی مانند ہیں، اگر کسی ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو اس کا اثر سارا جسم محسوس کرتا ہے، لیکن افسوس صد افسوس ہم قومیت کے مغربی تصورات کی نتیجے میں محدود علاقائیت کا شکار ہو چکے ہیں۔
گزشتہ روز دفتر خارجہ کی طرف سے واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے اس اتحاد میں شمولیت سے مڈل ایسٹ پر اس کی پالیسی میں تبدیلی نہیں ہو گی، خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم امہ میں اس قسم کا کوئی بھی فوجی اتحاد ایک زبردست پیش رفت ہے،بقول اقبال
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
یہ مسلم فوج حرم کی پاسباں بھی ہے اور دہشت گردوں کے خاتمے میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرے گی۔
صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں