07 اپریل ، 2017
میانمار میں برسراقتدار رہنما آنگ سان سوچی نے کہا ہےکہ مجھے نہیں لگتا کہ میانمار میں مسلمان اقلیت کا نسل کی بنیاد پر قتل عام ہو رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے وہاں بہت دشمنی ہے، مسلمان مسلمان کو مار رہے ہیں۔ یہ صرف کسی ایک کمیونٹی کو ختم کرنے کی بات نہیں ہے۔
نوبیل انعام یافتہ سوچی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ میانمار کی شمالی ریاست رخائین میں مشکلات ہیں جہاں روہنگیا کے مسلمان آباد ہیں لیکن نسل کشی جیسی اصطلاح کا استعمال بہت سخت ہے۔
آنگ سانگ سوچی کو اس وقت بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب میانمار کی حکومت نے شمالی ریاست رخائین میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔
آپریشن کے دوران فوج پر روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل، تشدد اور ریپ کے الزامات عائد کیے گئے یہاں تک کہ ستر ہزار افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بنگلا دیش بھاگنا پڑا۔
اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے مقدمات کی جانچ پڑتال کرے گی۔