15 اپریل ، 2017
مشعال خان قتل کیس میں ایک نیا موڑ سامنے آ گیا ہے۔ مشعال سمیت 3طالب علموں کو یونیورسٹی سے معطل کرنے کا نوٹیفکیشن سامنے آ گیا، نوٹیفکیشن پر قتل کے دن ہی کی تاریخ لکھی ہے۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے اسسٹنٹ رجسٹرار کو کسی نے حکم دیا ہے۔
نوٹیفکیشن پر 13 اپریل کی تاریخ لکھی ہے اور یہ وہی تاریخ ہے جس روز مشعال خان کو قتل کیا گیا تھا۔نوٹی فکیشن کے مطابق ایک کمیٹی مشعال سمیت 3طالب علموں پر توہین مذہب کے الزامات کی تحقیقات کرے گی۔
نوٹیفکیشن میں کمیٹی کے6 ارکان کے نام بھی شامل ہیں، تاہم کمیٹی کے کنوینر کو ایسی کسی کمیٹی کے قیام کا علم مشعال کے قتل کے اگلے روز ہو سکا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق تینوں طلبہ کے یونی ورسٹی میں داخلے پر تاحکم ثانی پابندی بھی لگائی گئی ہے۔
اس نوٹیفکیشن کے سامنے آنے کے بعد تحقیقات میں کچھ نئے سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ جب الزام کی تحقیقات ابھی ہونا تھی تو طالب علموں کو معطل پہلے ہی کیوں کر دیا گیا۔
دوسرا سوال کیا یہی وہ نوٹیفکیشن تو نہیں جو طالب علموں میں اشتعال کا سبب بناتھا؟۔ تیسرا سوال یہ کہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار کے پاس وہ کون سے ثبوت تھے جن کی بنیاد پر مشعال اور دیگر 2 طلبہ پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔
چوتھا سوال یہ کہ کیا مناسب نہ ہوتا کہ نوٹی فکیشن میں توہین مذہب کے الزام کا ذکر نہ کیا جاتا؟۔