18 اپریل ، 2017
مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس کی رپورٹ آئی جی پولیس خیبر پختون خواہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے واقعہ کی اطلاع نہیں دی، صر ف یونیورسٹی آنے کا کہا، یونیورسٹی ملازمین اور ممبران فیکلٹی کو شامل تفتیش کرلیا ہے، ہجوم کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والے مشال کے دوست عبداللہ کے بیان کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ مشال سے ناخوش تھی۔
مردان پولیس کو یونیورسٹی انتظامیہ نے 12بج کر 52منٹ پر فون کیا، یونیورسٹی انتظامیہ نے واقعے کی اطلاع نہیں دی تھی، محض آنے کا کہا، مردان پولیس کے ڈی ایس پی حیدر خان یونیورسٹی پہنچے تو مشال کے دوست عبداللہ پرتشددجاری تھا۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈی ایس پی حیدر خان نے مشال کے دوست عبداللہ کو تشدد سے بچایا، ڈی ایس پی حیدرخان کے موبائل فون کے کال ڈیٹا کاریکارڈ بھی حاصل کرلیا گیاہے اور واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کرلی گئی ہے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق مشال خان کے دوست عبداللہ نے سیکشن 164 کا بیان ریکارڈکرا دیا ہے جس میں عبداللہ نے کہا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ مشال سے ناخوش تھی، واقعے کے روز یونیورسٹی انتظامیہ مشال کے خلاف توہین مذہب کی انکوائری کررہی تھی اور عبداللہ کوبھی انکوائری کمیٹی میں بلایا گیا تھا۔
عبداللہ نے انکوائری کمیٹی کے سامنے مشال کی طرف سے توہین مذہب کے الزام کی تردید کی۔
ذرائع کے مطابق پولیس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ عبداللہ کومشال خان کے خلاف بیان دینے کا کہا گیامگر اس نے انکارکیا جس پر اسے باتھ روم میں بند کر دیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے یونیورسٹی ملازمین اور ممبران فیکلٹی کو شامل تفتیش کرلیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشال خان کے ایک اور دوست زبیر کے بارے میں فی الحال کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔