10 جولائی ، 2017
پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے شریف فیملی کی جائیداد اور بینک اکائونٹ کے بارے میں تفتیش کے لئے وکلا کی جس فرم کی خدمات حاصل کی تھیں اطلاعات کے مطابق وہ شریف فیملی کے خلاف ثبوت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق وکلا کی فرم نے خارجہ اور دولت مشترکہ آفس کو ایک خط لکھا تھا جس میں ٹرسٹ کی دستاویزات پر موجود دستخط کے اصلی ہونے کی تصدیق کرنے اور اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے کہ اس حوالے سے کوئی جعلسازی نہیں کی گئی ہے لیکن برطانیہ کے خارجہ اور دولت مشترکہ آفس نے وکلا کی فرم کے اس خط کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
کم وبیش یہی صورتحال مختلف ہائوسنگ سوسائٹیز اور بینکوں کی ہے اور بینکوں نے جن میں بارکلے، ایچ ایس بی سی، امریکن ایکسپریس، لائیڈز اور ٹی ایس بی شامل ہیں، وکلا کی جانب سے بھیجے جانے والے سوالنامے کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
برطانوی قانون کے تحت بینک سوائے فوجداری تفتیش کے جس میں عدالت کی جانب سے بینکوں سے اس طرح کے معاملات میں تعاون کی درخواست کی گئی ہو، اپنے کھاتے داروں کی تفصیلات کسی اور کو منتقل نہیں کرسکتیں۔
دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ حسن اور حسین نواز سے لین دین کرنے والے تمام بینکوں نے سپریم کورٹ کو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ وہ برطانیہ میں حسن اور حسین سے مکمل طورپر مطمئن ہیں اور نوازشریف کے بیٹوں نے اپنے برطانوی اکائونٹس میں جو رقوم وصول کیں اور جو رقوم باہر بھیجی گئیں وہ مکمل طورپر شفاف اور جائز تھیں۔
اطلاعات کے مطابق بینکوں نے کہا انھیں کبھی کسی طرح کی منی لانڈرنگ کا شبہ نہیں ہوا اور حسن او ر حسین کی کمپنیوں کے ساتھ جو کم وبیش 2؍ عشروں سے کام کررہی ہیں ڈیلنگ میں کسی طرح کی کوئی پریشانی پیش نہیں آئی۔
اطلاعات کے مطابق جے آئی ٹی کی جانب سے لندن میں وکلا کی جس فرم کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اس نے ان بینکوں سے حسن اورحسین کے تمام بینک اکاؤنٹس کے گوشوارے فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔
لیکن اطلاعات کے مطابق کسی بھی بینک نے اس خط کاجواب نہیں دیا اور یہ بات ناممکن ہے کہ بینک اپنے کھاتے داروں کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کرسکے کیونکہ یہ کھاتے داروں کے معاملات راز میں رکھنے کے قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔
چونکہ برطانیہ میں شریف فیملی کے ارکان کے خلاف کوئی کرمنل مقدمہ نہیں ہے اس لئے یہ بھی ناممکن ہے کہ حکومت کسی بھی سطح پر اس طرح کی کسی درخواست کو قبول کرے اسی طرح مضبوط قانونی وجوہات کے بغیر ریونیو اور کسٹمز اور لینڈ رجسٹری کے محکمے بھی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کرسکتے۔