20 جولائی ، 2017
پاناما کیس کی سماعت کے دوران حسین، حسن اور مریم نواز نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر اعتراضات کی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی جانب سے پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے صاحبزادوں اور بیٹی مریم نواز کی جانب سے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر 17 صفحات پر مشتمل اعتراضات کی درخواست وکیل سلمان اکرم راجا کے توسط سے جمع کرائی گئی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جے آئی ٹی نے کچھ مٹیریل چھپایا اور جس طرح کے سوالات کئے وہ درست نہیں جب کہ جے آئی ٹی نے مواد غیر مصدقہ اور نامعلوم ذرائع سے حاصل کیا اس لئے رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کا حقیقی مقصد مریم نواز کو کسی بھی طرح مقدمے میں ملوث کرنا تھا، جے آئی ٹی کا برٹش ورجن آئی لینڈ سے منگوایا گیا خط اہم مثال ہے، اس خط پر جے آئی ٹی نے تفتیش کرنے کی زحمت بھی محسوس نہیں کی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ یو اے ای حکومت کے خط کی بنیاد پر 14 اپریل 1980 کے معاہدے کو نہ ماننا غلط ہے، یہ کہنا کہ 12ملین درہم کی ادائیگی کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں غیر ضروری الزام ہے جب کہ معاہدے کی نوٹری پبلک سے تصدق شدہ کاپی حسین نواز نے مئی 2016 میں حاصل کی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ عزیزیہ اسٹیل مل 2005 میں 63 ملین ریال میں فروخت کی، اگر جے آئی ٹی پوچھتی تو بینک اسٹیٹمنٹس پیش کی جاتیں تاہم جے آئی ٹی نے اس معاملے پر حسین نواز سے پوچھا تک نہیں اور خود اخذ کیا کہ یہ فروخت 42 ملین ریال کی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ اسٹیل مل کے لئے کوئی مشینری جدہ نہیں بجھوائی گئی تاہم 63 ملین ریال کی بینک اسٹیٹمنٹس اور چیکس سپریم کورٹ میں پیش کر رہے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ اسٹیل مل کے لئے مشینری دبئی سے ابوظہبی کے راستے جدہ بھجوائی گئی جب کہ ابوظہبی سے مشینری کی نقل و حمل کی دستاویزات بھی پیش کی جاسکتی ہیں، اگر حسین نواز سے پوچھا جاتا تو وہ مشینری کی نقل و حمل کے بارے میں بتاتے۔