25 جولائی ، 2017
توہین عدالت نوٹس کیس میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمان، پرنٹر پبلشر میر جاوید الرحمان، دی نیوز کے رپورٹر احمد نورانی عدالت عظمی میں پیش ہوئے۔
کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ اس موقع پر جسٹس عظمت نے کہا کہ ہم سب کے لیے پریس کی آزادی مقدم ہے۔جب برداشت سے چیزیں گزر جاتی ہیں تو ہم گلے شکووں کے لیے بلاتے ہیں۔ہمارے دروازے کھلے ہیں کبھی ہماری بات بھی مان لیا کریں۔
ایڈیٹر ان چیف جنگ گروپ میر شکیل الرحمان نےکہا کہ ’’کہا گیا یہ خبریں چھپی ہیں، کس کی ایماء پر چھپی ہیں۔میرے ایڈیٹوریل بورڈ کواس الزام سے شدید تکلیف ہوئی، اگر کوئی خبر غلط چھپی تواس پر مجھے افسوس ہے۔مگر میں فاضل جج صاحبان کے سامنے بہت احترام سے کہتا ہوں کہ اگر میرا اسٹاف مجھ سے یہ پوچھے کہ آپ کس کی ایماء پر یہ خبریں چھاپ رہے ہیں تو میں اپنے اسٹاف سے کہوں گا کہ آپ یہ سوال کس کی ایماء پر کر رہے ہیں۔ مگر میں عدالت میں تو ایسا سوال نہیں کر سکتا۔ ‘‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’’ذرائع کو بنیاد بنا کر خبر چھاپی گئی کہ عدالت یہ حکم دینے جا رہی ہے۔ خبر ایسے چھاپی گئی جیسا کہ کوئی عدالتی حکم ہو۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم اس بات سے آمادہ ہیں کہ آپ کے بنیادی حقوق کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ’’ہم آپ سے تکرار نہیں کر رہے لیکن آپ کے اخبار نے جان بوجھ کر ایسی خبریں چھاپیں، آپ کو بھرپور موقع فراہم کریں گے۔‘‘
جسٹس عظمت شیخ نے کہا کہ آپ کی اخبار میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے نتائج پر مبنی خبر چھپی جو غلط ثابت ہوئی اور آپ کو اپنے اخبار میں اس کی معافی چھاپنی پڑی۔
ایڈیٹر ان چیف جنگ گروپ میر شکیل الرحمان نے کہا کہ ادارے نے رضاکارانہ معافی مانگی، عدالت نے نہیں کہا تھا، مجھے دکھ ہوا ہماری ایک خبر غلط ہو گئی۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ سے متعلق بھی غلط رپورٹنگ ہوئی تھی۔ اس پر میر شکیل الرحمان نے کہا کہ جہاں خبر غلط ہو گی معافی مانگنا چاہیے۔
جسٹس عظمت نے کہا کہ ’’ہم جو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب کے لیے پریس کی آزادی مقدم ہے، میں نے اپنے فیصلوں میں لکھا کہ اگر کوئی غیر ضروری تنقید ہو تو بھی برداشت کر لیں گے لیکن جب برداشت سے چیزیں گزر جاتی ہیں تو ہم گلے شکووں کے لیے بلاتے ہیں، ہمارے دروازے کھلے ہیں کبھی ہماری بات بھی مان لیا کریں۔‘‘
میر شکیل الرحمان نے کہا کہ جو آپ کے ریمارکس ہوتے ہیں وہ آرڈر شیٹ میں نہیں ہوتے۔
اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کہتے ہیں تو آئندہ اپنے ریمارکس کو آرڈر میں شامل کر لیں گے، کیا آپ اس بات پر زور دے رہے ہیں، اس سے مسئلہ پیدا ہو گا۔میر شکیل الرحمان نے کہا کہ یہ آپ کا حق ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو نوٹس دیا ہے اس میں سب چیزیں آ جائیں گی ہمیں پریس کی آزادی مقدم ہے مگر کسی پر کیچڑ نہیں اچھالنا چاہیے۔
میر شکیل الرحمان نے کہا کہ فاضل جج صاحبان سے اتفاق کرتا ہوں۔
ایڈیٹر ان چیف جنگ گروپ نے کہا کہ ’’عدالت نے اشتہارات کا تین ماہ کا رکارڈ منگوانے کی بات کی جو حکومت کی جانب سے تاحال نہیں پیش کیا گیا، اجازت دی جائے کہ جنگ گروپ یہ تفصیلات عدالت میں پیش کرے، نہ صرف تین ماہ بلکہ موجودہ دور حکومت، گزشتہ حکومت اور اس سے پچھلی حکومت کے اشتہارات کی تفصیلات منگوائی جائیں۔ اشتہارات اسی کو زیادہ ملتے ہیں جو اخبار مارکیٹ میں زیادہ پڑھا جاتا ہو اور جو چینل سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہوں، خیبر پختونخوا میں جہاں عمران خان کی حکومت ہے وہاں سے جیو سمیت جنگ گروپ کو سب سے زیادہ اشتہار ملتے ہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اشتہارات کا معاملہ اس عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہے،، آپ جو جواب داخل کرنا چاہتے ہیں 22 اگست تک کردیں۔‘‘