12 اگست ، 2017
بالی وڈ کی فلم ”ٹوائلٹ ایک پریم کتھا“ نے پاکستانی فلم میکرز کا سَر بھی فخر سے بلند کردیا اور اب اکشے کمار کی اِس فلم کا پاکستان سے کیا” کنکشن “ہے؟ یہ آپ کو بتائیں گے لیکن پہلے بات میری، آپ کی اور ہر انسان کی ضرورت ”ٹوائلٹ “ کی جس کو پریم کتھا یعنی عجب پریم کی غضب کہانی بنا کر پیش کیا گیا۔
ٹوائلٹ کا گھر میں نہ ہونا دنیا بھر میں کروڑوں افراد کا مسئلہ ہے اس سے صرف حضرات ہی نہیں بلکہ خواتین بھی پریشان ہیں۔
پاکستان میں بھی شہر ہو یا گاؤں لاکھوں لوگ اس سہولت سے محروم ہیں بلکہ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی بس کے سفر کے دوران یا پیدل چلتے دائیں بائیں ایسے مناظر دِکھ جاتے ہیں جہاں لو گ اس سہولت سے محروم ہونے کی وجہ سے دیواروں کو گندا کر رہے ہوتے ہیں۔
بھارت میں تو اس سے زیادہ زیادہ برا حال ہے کیوں کہ وہاں کروڑوں شہری اور دیہاتی اس سہولت سے محروم ہیں بلکہ کئی گاؤں تو ایسے ہیں جہاں پورے علاقے میں ٹوائلٹ نہیں ہوتا بلکہ مرد اور عورتیں قریب کے کھیتوں کو اپنی آسانی اور ضرورت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
یہاں تک کہ کبھی کبھی حکومتی وزیروں کو بھی گارڈز کے پہرے میں دیواریں ”استعمال“ کرنی پڑجاتی ہیں۔
لیکن ٹوائلٹ ایک پریم کتھا اُن کی کہانی نہیں جن کے پاس گھر نہیں یا وہ غربت کی وجہ سے اپنے گاؤں میں گھر میں ٹوائلٹ نہیں بنواسکتے یہ تو داستان ہے ان مَردوں کی جو اپنی سوچ ،روایات اور رسومات کی وجہ سے اپنے گھر میں ٹوائلٹ بننے نہیں دیتے چاہے اس کیلئے انھیں باہر گلی میں پائپ، نالی یا دیوار ہی استعمال کیوں نہ کرنا پڑے اور اِن کی عورتوں کو اکھٹے صبح سے پہلے والے اندھیرے میں” لوٹا پارٹی“ کیلئے گاؤں سے دور کھیتوں میں جانا پڑے۔
فلم میں اکشے کمار نے ایسے پڑھے لکھے دیہاتی کا کردار کیا ہے جو سمجھ دار تو بہت ہے لیکن اپنے ”باپو“ کے سامنے مجبور بھی بہت اُس کی شادی میں ایک نہیں کئی ”رکاوٹیں “ ہیں جنھیں وہ ایک ایک کر کے ”جگاڑ“ سے دور کرتا ہے اور اپنی عمر سے کہیں کم سن لیکن پر اعتمادلڑکی سے محبت اور پھر شادی کرتا ہے۔
اس لڑکی کے گھر والے اکشے کے گھر والوں سے بالکل الٹ ہوتے ہیں اور شادی کے بعد جب یہ راز بیوی پر کھلتا ہے کہ اس کے سسرال میں تو کیا پورے گاؤں میں ”ٹوائلٹ“ ہی نہیں(گاؤں میں صرف ایک گھر ٹوائلٹ کیوں ہوتا ہے یہ آپ کو فلم دیکھ کر پتا چلے گا)۔بس یہاں سے محبت کی جنگ نیا موڑ لیتی ہے اور یہ دلہنیا نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے گاؤں کی عورتوں کیلئے ڈٹ جاتی ہے۔
محبت میں مجنوں نے ریگستان کی خاک چھانی،فرہاد نے دودھ کی نہر بنائی، شاہجہاں نے تاج محل تعمیر کرایا اب اسی محبت میں گرفتار عاشق کے لیے چیلنج بنتا ہے گھر میں” ٹوائلٹ“بنوانا لیکن اس چیلنج میں ناکامی کے بعد اکشے کمار کی ہر ”جگاڑ“ پہلے کام کرتی ہے پھر ناکام ہوجاتی ہے ۔
اب روٹھ کر میکے جانے والی دلہنیا کو منانے کیلئے اکشے کمار کس طرح گھر والوں، گاؤں والوں اور سرکار سے جنگ لڑتا ہے اور جیت جاتا ہے لیکن اس سب کا مزا تو فلم دیکھ کر ہی آتا ہے۔
اکشے کمار نے ’’رستم‘‘ اور ’’ایئر لفٹ‘‘ جیسی بڑی بجٹ فلمیں کرکے سو سو کروڑ سمیٹے”جو لی ایل ایل بی 2“ میں دیسی بنے اور وہاں بھی سو کروڑ کا چھکا لگایا اِس فلم میں اُن کے کردار، روپ اور اسٹائل پر خوب محنت ہوئی ہے۔
اکشے کہیں بھی رول سے باہر نکل کر ہیرو نہیں بنے ،ان کے لیے ”خاص“ برانڈز کے کپڑے بھی تیار ہوئے۔ شادی کا سوٹ ہو یا ٹی شرٹ اکشے کے کپڑوں پر خوب محنت ہوئی کپڑوں کے اوپر باڈی اسپرے لگانا بھی زبردست سین تھا جس کے بعد اب اکشے کے اس کردار سے ایوارڈز میں نامزدگی پکی ہے۔
فلم میں پہلے اکشے کی محبوبہ پھر دلہنیا اور پھر رول ماڈل کا کردار نبھایا ہے بھومی پڈنیکر نے یہ وہی بھومی ہیں جو ”دم لگا ہیشا“ میں موٹی بیوی کے کردار میں نظر آئیں تھیں۔
دونوں فلموں میں بھومی کا روپ دیکھ کر لگتا ہی نہیں ہے کہ دونوں کردار ایک ہی ایکٹرس نے ادا کیے ہیں اور اس فلم میں بھی ان کی ایکٹنگ دیکھ کر ان کی چوائس کو داد دینا بنتی ہے کیونکہ ان کی دونوں فلمیں ذرا نہیں بالکل ”ہَٹ “کر ہیں۔
اکشے کے بھائی کے کردار میں ایک اور ٹیلنٹڈ اداکار ہیں جن کا نام ہے ”دیوندیو شرما“ یہ پیار کا پنچ نامہ سے مشہور ہوئے اور علی ظفر کے ساتھ ”چشم بدور“ میں بھی نظر آئے تھے۔
کچھ عرصہ فلموں سے غائب رہنے کے بعد دیوندیو کی یہ انٹری ایک سرپرائز ثابت ہوئی۔انھوں نے اپنی ٹائمنگ سے سب کو ہنسا ہنسا کر پیٹ میں درد کرا دیا اور انٹر ویل میں ٹوائلٹ پہنچوایا۔
انوپم کھیر نے پھر ایک مختلف، ہلکا پھلکا لیکن بھر پور کردار ادا کیا اور فلم میں اکشے کے باپو ”سدھیر پانڈے“ نے روایات اور رسومات کے غلام شخص کا زبردست کردار ادا کیا۔
فلم میں سینئر اداکارہ ”شوبھا کھوٹے“ بھی کافی عرصے بعد نظر آئی ہیں جو 50سال سے زائد اس انڈسٹری میں گزار چکی ہیں اورفلم” شعلے “ میں مشہور فلمی کردار ”کالیا“ کا رول نبھانے والی ”وجو کھوٹے“ کی بڑی بہن بھی ہیں۔
فلم میں ہریتھک روشن، سنی لیون اور ملیکہ شیروات بھی” منفرد“ انداز میں پیش ہوئے ہیں۔
فلم کو باکس آفس پر بڑا”وِیک“ ملے گا کیونکہ اس ہفتے ایک اضافی چُھٹی بھی ہے۔فلم کے سو کروڑ تو پکے ہیں لیکن یہ فلم ممکنہ طور پر اکشے کمار کی پہلی دو سو کروڑ کی فلم بھی بن سکتی ہے کیونکہ یہ فلم کئی بھارتی ریاستوں میں ٹیکس فری ہوگی۔
اکشے کمار اس سے پہلے سو سو کروڑ کی 7 سے زائد فلمیں باکس آفس کو دے چکے ہیں۔فلم تھوڑی سی لمبی ہے اگر یہی فلم 2گھنٹے کی ہوتی تو زیادہ تیز ہوتی ابھی ڈھائی گھنٹے میں انٹر ویل کے بعد اور ”دی اینڈ“ سے پہلے فلم بہت سست بھی ہوجاتی ہے۔
فلم میں آسان سادہ چٹ پٹے مکالمے ہیں لیکن اب ”کبیر بیدی کی چار شادیوں اور فلم خون بھری مانگ“ کا مکالمہ ہر کسی کے لیے نہیں تھا اس کو چھوڑا بھی جاسکتا تھا تو وہیں دوسری طرف ”پرائی بیوی اور ٹی وی کے آن“ جیسے کئی مزیدار مکالمے بھی ہیں۔
لوکیشن بہت زبردست اور فلم کی مناسبت سے ہیں اور عموما جتنی دور اکشے کا گاؤں اور بھومی کا شہر تھے اتنے ہی فاصلے پر پورے ایک گاؤں میں ”ٹوائلٹ “ کا نہ ہونا سب کو پتا ہونا چاہیے تھا۔
” سوشل چینج “ جیسے سنجیدہ مقصد کیلئے ہلکی پھلکی کامیڈی کا بہترین ”شوگر کوٹڈ “ استعمال کیا گیا ہے۔فلم میں سوشل چینج تو ہے ہی لیکن بھارت کی مودی سرکار کا پروپیگنڈا اور تشہیر بھی خوب ہے۔
ایک ہی سال میں ”کانگریس“ حکومت کی 1975 کی ایمرجنسی پر تین فلمیں اور اوپر سے ٹوائلٹ کا بننا معنی خیز ضرور ہے۔اس فلم کا ٹائٹل ”اردو“ میں بھی شو ہوتا ہے جس کا رجحان آج کل بالی وڈ میں کم ہوتا جارہا ہے۔
فلم ظاہر ہے دیسی پس منظر کی ہے ۔ٹوائلٹ کی ہے تو” ٹوائلٹ ہیومر“ تو ہوگا ہی جو ہمارے کچھ انگریزی فلمیں دیکھ کر پاکستانی فلمیں پر تبصرے کرنے والوں کو پسند نہیں لیکن وہ بھی یقینا ”غیروں پہ کرم اپنوں پر ستم“ کی طرح اِس فلم کی تعریف میں زبرست ریویوز لکھیں گے۔
اس فلم کو سنجیدہ اور کلاسک سینما کہیں گے( ایسا حقیقتاََ ہے بھی )۔ایسا لگے گا وہ یہ سارے لوکیشن اور مسائل اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔
لیکن افسوس کچھ ”ناقدین“ پاکستانی فلم ”مہرالنساء وی لب یو “ میں یہی سب باتیں نہیں دیکھ سکے۔
جی ہاں! عید پر ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ” مہرالنساء وی لب یو “ اور اکشے کمار کی ”ٹوائلٹ ایک پریم کتھا“ کا مرکزی خیال تقریبا ایک ہی ہے اور وہ ہے ”تبدیلی“ جو اپنے محلے سے گاؤں سے اپنے گھر سے اپنے آپ سے شروع ہوتی ہے۔
مہر النساء وی لب یو میں بھی ہیرو کو اپنے محلے کی خامیوں(شور،گالیاں،گندگی ) کااس وقت تک احساس بھی نہیں ہوتا جب تک وہ باہر سے اپنی دلہنیا نہیں لاتا۔بھومی کے ”کاکا“ کو نئے زمانے کی سنی لیونی کے دیوانے ہوتے ہیں تو یہاں ہیرو کے دادا ذومعنی جملوں کیلئے ”ٹیکنالجی“ کا سہارا لیتے ہیں۔
دونوں فلموں میں ہیرو کے ابا ”رسومات اور روایات “ سے بندے ہوتے ہیں۔
”ٹوائلٹ ایک پریم کتھا “ میں کھلے آسمان کے نیچے اپنی ضرورت کیلئے بیٹھی عورتوں پر جب کوئی لائٹ مارتا ہے تو دل کانپ جاتا ہے یہی حال جب ”مہرالنسا ء وی لب یو “ میں علی جب مہرالنسا کے ساتھ بائیک پر سڑک پر پھنس کر اپنا عکس شیشے میں دیکھتا ہے تو احساس ہوتا ہے ہم کس دلدل میں ہنسی خوشی دھنستے جارہے ہیں۔
فلم ریویو والے بھائیوں ٹوائلٹ والے گاؤں کا ماحول تو پتا ہے لیکن افسوس وہ یہاں کے محلے والے گھروں کا حال نہیں جانتے بڑافرق تھا تو بجٹ اور سپورٹ کا، ”ٹوائلٹ “ کے پیچھے پوری مودی سرکار ہے۔
نوٹ:
1۔ہر فلم بنانے والا فلم پر باتیں بنانے والے سے بہتر ہے ۔۔
2۔فلم سینما پر دیکھیں ضرور ،کیونکہ فلم سینما کیلئے ہی بنی ہے۔ آپ کے ایل ہی ڈی یا موبائل فون یا لیپ ٹاپ کیلئے نہیں۔
3۔فلم کا ریویو صرف ایک فرد کا تجزیہ ہوتا ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح بھی ہوسکتا ہے اور اکثر کی رائے سے مختلف بھی۔
4۔غلطیاں صرف فلم بنانے والے سے نہیں ہم سے بھی ہوسکتی ہے آپ سے بھی ۔۔تو آپ اگر کوئی غلطی دیکھیں اس کی نشاندہی ضرور کریں(شکریہ)۔