پاکستان کے ستر سال: قومی کھلاڑی بنتے رہے ملک کی پہچان

14 اگست 1947 کو آزادی حاصل کرنے بعد کھیلوں کے عوض پاکستان کو بہت سے اعزازات حاصل نصیب ہوئے اور اگر یوں کہا جائے کہ کھیلوں نے ہمیشہ پاکستان کو پچان دی تو یہ غلط نہ ہوگا۔

دنیا کے نقشے پر نئی ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو کھیلوں کی دنیا میں پہلی بار 1948 کے لندن اولمپکس میں پہچانا گیا جس میں 35 رکنی پاکستانی دستے نے شرکت کی۔ 

اپنے اولین اولمپکس میں پاکستان نے کوئی میڈل تو حاصل نہ کیا البتہ پاکستان ہاکی ٹیم کو سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا اور ایونٹ میں پاکستان ہاکی ٹیم نے مجموعی طور پر چوتھی پوزیشن حاصل کر کے دنیائے کھیل میں خود کو متعارف کرایا۔

پاکستان کو کھیلوں کی دنیا میں پہلی فتح 50 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت ملی جب برٹش اوپن اسکوائش چیمپئن شپ میں پاکستان کے ہاشم خان نے مصر سے تعلق رکھنے والے حریف محمود کریم کو شکست دی۔

برٹش اوپن اسکوائش چیمپئن شپ میں پہلی کامیابی کے بعد پاکستان لگاتار 13 سال تک ناقابل شکست رہا۔ ہاشم خان کے بعد اسکوائش میں روشن خان، اعظم خان اور محب اللہ خان کا طوطی بولتا رہا۔

1952 میں پاکستان فٹبال ٹیم نے کسی بھی ٹیم ایونٹ میں پاکستان کو پہلا اعزاز دلوایا ۔ کولمبو کپ میں پاکستان ، سری لنکا (سیلون) اور برما کو شکست دے کر فائنل میں پہنچا تاہم بھارت سے کھیلا جانے والا فائنل ٹاکرابرابر رہا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کو ایونٹ کا مشترکہ فاتح قرار دیا گیا۔

اسی سال پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھارت میں مہمان ٹیم کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا، ابتدائی میچ میں قومی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دوسرے میچ میں پاکستان نے بھارت کو لکھنو میں اننگز اور 43 رنز سے عبرتناک شکست دی اور یہی فتح پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں پہلی فتح تھی۔

1954 میں ہونے والے ایشین گیمز میں پاکستان کھیلوں کی دنیا میں ابھرتی ہوئی قوم کی حیثیت سے سامنے آیا جس میں پاکستانی ایتھیلیٹ نے 5 گولڈ میڈل اپنے نام کئے۔ پاکستان کی جانب سے دین محمد پہلے ایتھیلیٹ تھے جنہوں نے باقاعدہ طور پر آفیشل گولڈ میڈل اپنے نام کیا، انہوں نے 52 کلو گرام ریسلنگ کے مقابلے میں جاپان کے یوشو کیتانو کو شکست دے کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔

ریسلنگ کے مقابلوں میں دین محمد کی فتح کے بعد پاکستانی ریسلرز نے متعدد ایشین گیمز اور کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کا سربلند کئے رکھا۔

اسی ایونٹ میں پاکستان کے عبدالخالق 100 میٹر ریس میں گولڈ میڈل حاصل کرکے ایشیا کے تیز ترین ایتھیلیٹ قرار پائے جب کہ محمد شریف نے 200 میٹر اور مرزا خان نے 400 میٹر مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کر کے کھیلوں میں پاکستان کو اعزاز دلایا۔

1954 کے ایشین گیمز ہی میں پاکستانی فٹبالر مسعود فخری نے تین گول کر کے انٹرنیشنل مقابلوں میں ہیٹ ٹرک کرنے والے پہلے پاکستانی اور پہلے ایشین فٹبالر کا اعزاز حاصل کیا ، پاکستان نے اس میچ میں سنگاپور کو 2-6 سے شکست دی۔

پاکستان کے پہلے فٹبال سپر اسٹار مسعود فخری

1954 کے کامن ویلتھ گیمز کے 'ہیمر تھرو' مقابلوں میں پاکستان کے محمد اقبال نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ جس کے بعد پاکستانی ایتھیلیٹ کی کامیابی کا سلسلہ جاری رہا۔

1956 میں میلبرن اولمپکس گیمز میں پاکستان نے پہلی مرتبہ اولمپک میڈل حاصل کیا اور یہی وہ سال تھا کہ پاکستان نے کسی بھی اولمپکس مقابلوں میں 2 میڈل حاصل کئے۔ پاکستانی ہاکی ٹیم نے بھارت سے فائنل میں شکست کے بعد سلور میڈل حاصل کیا جب کہ ریسلر محمد بشیر نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔

1950 کی پاکستان فٹبال ٹیم کی ایک نایاب تصویر

میلبرن اولمپکس کے دو سال بعد 1958 پاکستانی ہاکی ٹیم نے ایشین گیمز میں پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا جس کے بعد پاکستان کو ایشین گیمز میں 8 گولڈ میڈل حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

1960 میں روم میں ہونیوالے مقابلوں میں پاکستان ہاکی ٹیم نے اپنی عالمی حکمرانی ثابت کردی اور گولڈ میڈل اپنے نام کیا ۔ 

پاکستان کو باکسنگ مقابلوں میں پہلی بڑی کامیابی 1962 کے جکارتہ ایشین گیمز میں اس وقت ملی جب پاکستانی باکسر محمد صفدر اور برکت علی نے لائٹ ہیوی ویٹ اور ہیوی ویٹ کیٹیگری مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کئے۔

1988 اولمپکس میں پاکستانی باکسر حسین شاہ نے اولمپک میڈل حاصل کیا، انہیں کانسی کا تمغہ ملا۔

1978 کے ایشین گیمز میں پاکستان کے بیرام آواری اور منیر صادق نے واٹر اسپورٹس مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔

پاکستانی ایتھیلیٹس کو 4 مختلف کھیلوں میں ورلڈ چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل ہے جن میں ہاکی، کرکٹ، اسکوائش اور اسنوکر شامل ہیں۔

بے شمار کامیابیاں سمیٹنے کے بعد کسی کو یہ دعویٰ کرنے میں شرمسار نہیں ہونا چاہیے کہ اسپورٹس ہی وہ چیز ہے جو کسی بھی قوم کا فخر بننے کا باعث بنتا ہے۔