14 اگست 1947 میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے ہی شاید کھیل ہی واحد ایسی چیز ہے جس پر پوری پاکستانی قوم متحد دکھائی دیتی ہے۔
13 اگست ، 2017
14 اگست 1947 میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے شاید کھیل ہی واحد ایسی چیز ہے جس پر پوری پاکستانی قوم متحد دکھائی دیتی ہے جب کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے بھی دنیا بھر میں قومی پرچم میں ہمیشہ بلند رکھا۔
ہاشم خان کی 1951 میں برٹش اوپن اسکواش میں فتح سے لے کر اسنوکر کی عالمی چیمپئن شپ میں پاکستان کی فتح اور روم اولمپکس میں ہاکی ٹیم کے گولڈ میڈل سے لے کر اوول کے میدان میں سرفراز احمد کی قیادت میں چیمپئنز ٹرافی کرکٹ میں بھارت کو شکست دینے تک کھلاڑی ملک کا پرچم سربلند کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
یوں تو ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کرنے والے کھلاڑیوں کی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔
مگر یہاں اس سال ملک کا 70 یوم آزادی منایا جا رہا ہے تو ہم اسی طویل فہرست میں سے صرف 7 ایسے کھلاڑیوں کا ذکر شامل کر رہے ہیں جنہوں نے اپنی شاندار کارکردگی سے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔
بلاشک و شبہ جہانگیر خان پاکستان کے بہترین کھلاڑی ہیں۔ ان کی اسکواش کے میدان میں حاصل کی گئی کامیابیاں ایسی ہیں کہ دنیا کوئی دوسرا کھلاڑی شاید ہی ان تک پہنچ سکے۔
بحثیت پروفیشنل اسکواش کھلاڑی جہانگیر خان نے ورلڈ اوپن کا ٹائٹل چھ مرتبہ اور برٹش اوپن کا ٹائٹل ریکارڈ 10 مرتبہ اپنے نام کیا۔
1981 میں 17 سالہ جہانگیر خان ورلڈ اوپن جیتنے والے کم عمر ترین کھلاڑی بنے۔ اس کامیابی کے بعد جہانگیر خان کی جیت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو کہ پانچ سال تک برقرار رہا اور وہ مسلسل ناقابل شکست رہے۔
اس دوران انہوں نے 555 میچز جیتے۔ ان کامیابیوں کا سلسلہ 1986 میں اس وقت رکا جب انہیں فرانس میں ورلڈ اوپن کے فائنل میں روس نورمن سے شکست ہوئی۔
میرے خیال میں جہانگیر خان دنیا کھیل سے سب سے بہترین کھلاڑی ہیں۔ اگر وہ سب سے بہترین نہیں تو لازماً ان میں سے ایک ضرور ہیں۔ ان کا مسلسل 555 میچز جیتنے کا ریکارڈ ایسا ہے کہ جسے ٹوٹنے میں شاید صدیاں لگ جائیں۔
اپنی کتاب ’’وننگ اسکواش‘‘ میں جہانگیر خان بتاتے ہیں کہ کیسے انہیں اپنے کیرئیر کے شروع میں ہی مایوس کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مجھے بتایا گیا کہ میں کبھی عالمی چیمپئن نہیں بن سکوں گا۔ میں اپنے خاندان کا میں سب سے کم عمر، کمزور اور بیمار بچہ تھا۔ ڈاکٹر اور میرے والد کو بالکل بھی یقین نہیں تھا کہ میں کبھی اسکواش کا اچھا کھلاڑی بھی بن سکتا ہوں۔ ‘‘
لیکن جہانگیر خان نے بحثیت کھلاڑی وہ کچھ حاصل کیا جس کا صرف خواب دیکھا جا سکتا ہے۔
جہانگیر خان ، وسیم اکرم اور سمیع اللہ کے ملک میں عبدالخالق جیسا ایتھلیٹ ہمیشہ ’’گم نام ہیرو‘‘ ہی رہتا ہے۔ عبدالخالق 1954 اور 1958 میں دو مرتبہ ایشین گیمز کی 100 میٹر کے فاتح رہے اور ’ایشیا کے تیز ترین انسان‘ کا خطاب پایا۔ انہیں بھارت کے سابق وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ’فلائنگ برڈ آف انڈیا‘ کا لقب دیا۔ عبدالخالق نے 36 انٹرنیشنل گولڈ میڈلز، 15 سلور میڈلز اور 12 کانسی کے تغمے پاکستان کے لیے جیتے۔
1954 کے ایشین گیمز میں عبدالخالق نے 100 میٹر کی دوڑ میں 10.6 سیکنڈز کا ریکارڈ قائم کیا۔ اسی ریس کے جیت کے بعد انہیں ’ایشیا کا تیز ترین انسان ‘ کا خطاب دیا گیا۔
اس وقت کے بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو جو کہ تقریب کے مہمان خصوصی بھی تھے نے عبدالخالق کو ’فلائنگ برڈ آف ایشیا‘ کا لقب دیا۔
عمران خان کا شمار دنیا کے بہترین کرکٹرز میں ہوتا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے فضل محمود سے لے کر وسیم اکرم اور حنیف محمد سے لے کر جاوید میانداد اور انضمام الحق تک بہترین کرکٹرز پیدا کیے۔ لیکن کرکٹ کے کھیل میں عمران خان کا شمار ہمیشہ ان کھلاڑیوں سے اوپر کیا جاتا ہے۔
عمران خان کی شخصیت نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے نوجوانوں میں بھی ایک فاسٹ بولر بننے کا شوق پیدا کیا۔ ان کی نڈر بیٹنگ اور قیادت نے دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کی۔
کرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفو پر عمران خان کی پروفائل میں انہیں پاکستان سے پیدا ہونے والا غیرمتنازع بہترین کرکٹر اور گیری سوبر کے بعد دنیا کا دوسرا بہترین آل راؤنڈر قرار دیا گیا ہے۔
عمران خان نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1971 میں کیا اور تین برس بعد ون کرکٹ میں آئے۔ 1976 میں انہوں نے قومی ٹیم میں مستقل حیثیت اختیار کر لی۔
ایک بہترین فاسٹ بولر کی حیثیت انہیں اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے آسٹریلیا میں فاسٹ بولنگ کے ایک مقابلے میں 139.7 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کرا کر جیف تھامسن اور مائیکل ہولڈنگ کے بعد تیسری پوزیشن حاصل کی۔
1982 میں عمران خان نے 9 ٹیسٹ میچوں میں 62 وکٹیں 13.29 کے اسٹرائیک ریٹ سے حاصل کیں جو کہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں کسی بھی سال میں کم از کم 50 وکٹیں حاصل کرنے بہترین اسٹرائیک ریٹ ہے۔
پاکستان نے کرکٹ کا واحد عالمی کپ بھی عمران خان کی قیادت میں 1992 میں جیتا۔
پاکستان ہاکی میں سے 70 سالوں کے دوران کسی ایک کھلاڑی کو چننا ایک مشکل ترین کام تھا۔ پاکستان نے ان 70 برسوں کے دوران بے شمار بہترین ہاکی کے کھلاڑی پیدا کیے ہیں جن میں نصیر بندا سے لے کر اصلاح الدین اور سمیع اللہ سے لے کر شہباز احمد تک جیسے نام شامل ہیں۔ ان تمام کھلاڑیوں سے ہاکی کےمیدان میں پاکستان کے لیے ایسے کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ جن کے بغیر پاکستان ہاکی کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔
مگر ان سب سے اوپر پاکستان ہاکی کی سب سے بڑی جیت 1956 کے ملبرن اولمپک میں چاندی کا تمغہ اور 1960 کے روم اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتنا تھا۔ یہ دونوں تمغے پاکستان ہاکی ٹیم نے حمید حمیدی کی قیادت میں حاصل کیے۔ ان فتوحات نے پاکستان ہاکی کو ایسے مقام پر پہنچایا کہ کئی دہائیوں تک پاکستانی نوجوانوں میں ہاکی کے شعبے میں جانے کا جنون برقرار رہا۔
حمید حمیدی کو 1960 میں اس وقت کے صدر پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔
اعصام الحق پاکستان کے غیرمتنازع بہترین ٹینس کھلاڑی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں صرف کرکٹ کو جنون ہو، وہاں اعصام واحد پاکستان ٹینس کھلاڑی ہیں جو کہ انٹرنیشنل ٹینس سرکٹ میں رہے۔ اعصام نہ صرف وہاں موجود رہے بلکہ انہوں نے ملک کے لیے کئی اعزازات بھی حاصل کیے۔
37 سالہ اعصام الحق اس وقت بھی اے ٹی پی میں موجود ہیں اور پاکستان کے لیے 15 ڈبلز ٹائٹل جیتنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔
اعصام واحد پاکستان کھلاڑی ہیں جنہوں نے یو ایس اوپن کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ انہیں کوئی مقامی اور انٹرنیشنل اعزازات اور ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
حسین شاہ کا شمار پاکستان کے بہترین باکسرز میں ہوتا ہے۔ ان کا شمار ان دو پاکستانیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے اولمپک میڈیل جیتا۔ حسین شاہ نے 1988 کے کوریا اولمپکس میں کانسی کا تمغہ پاکستان کے لیے جیتا تھا۔
کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے حسین نے ایشین گیمز میں 5 گولڈ میڈلز جیتے اور 1980 سے لے کر 1988 تک ایشیا کے بہترین باکسر رہے۔
حسین شاہ کو 1989 میں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔
اگر کسی ایسے کھیل کا ذکر کیا جائے کہ جس میں پاکستان نے سب سے زیادہ عالمی اور ایشین ٹائٹلز جیتے ہیں تو وہ اسنوکر کھیل ہے۔
اس کھیل میں اب تک پاکستان چھ عالمی ٹائٹلز جیت چکا ہے جو کہ قومی کھیل ہاکی سے بھی زیادہ ہیں۔ عالمی ٹائٹلز میں اسنوکر سے آگے صرف اسکواش جس میں پاکستان نے مجموعی طور پر 28 عالمی ٹائٹلز جیتے ہیں۔
محمد یوسف یو یہ اعزاز جاتا ہے کہ انہوں نے آئی بی ایس ایف ورلڈ اسنوکر کا ٹائٹل جیت کر پاکستان میں اسنوکر کے کھیل کو روح بخشی۔ انہوں نے 1994 میں آئس لینڈ کے جوہانس آر جوہانسیسن کو شکست دے کر عالمی اعزاز جیتا۔ اس کے چار سال بعد انہوں نے ایشین اسنوکر چیمپئن شپ بھی جیتی جب کہ 2006 میں انہوں نے ورلڈ ماسٹر چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔