Time 30 اگست ، 2017
خصوصی رپورٹس

بلوچستان میں خشک سالی کے آثار اور اثرات

ملک کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کو قدرت نے معدنی سمیت کئی وسائل سےنوازا ہے اس کے خوبصورت لینڈ اسکیپ پر کہیں پہاڑ ہیں تو کہیں میدان ،کچھ حصے میں صنوبرسمیت مختلف جنگلات بھی ہیں، صوبے کا تقریبا ایک ہزار کلومیٹر کےعلاقہ پر ساحل سمندرہے۔

لیکن بلوچستان کا بہت تھوڑے حصے پر باغات اورمختلف قسم کی زراعت ہوتی ہے مگر زیادہ تر حصہ بنجرزمین پرمشتمل ہے جہاں کہیں زراعت ہے بھی تو وہاں اس وقت خشک سالی کے خطرات منڈلارہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ کسی حدتک خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں تو بھی غلط نہ ہوگا، سa کی بڑی وجہ وجہ گزشتہ اور رواں سال مون سون کی بارشوں کا معمول سے بہت کم ہوناہے جہاں کچھ بارشیں ہوئی ہیں وہاں فی الحال خشک سالی کاخطرہ ٹل گیاہے۔

اس وقت خشک سالی کی صورتحال کاجائزہ لیا جائے تو بلوچستان کےشمالی علاقوں میں خشک سالی کا خطرہ زیادہ ہے، ان علاقوں میں قلعہ عبداللہ ،قلعہ سیف اللہ، پشین، مستونگ سمیت مختلف علاقے شامل ہیں۔

ان علاقوں کےعلاوہ کوئٹہ میں بھی خشک سالی ہے اس کااندازہ لگانے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ کوئٹہ کے نواح میں تقریبا 10 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع تفریحی مقام خوبصورت ہنہ جھیل بالکل خشک ہوچکی ہے، اس علاقے میں سیب ،آڑو،خوبانی اورانگورکےباغات کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے۔

ماحول پرکام کرنےوالی تنظیم آئی یو سی این بلوچستان کےقائم مقام سربراہ نصیب اللہ خان نے اس امر کی تصدیق کی کہ بلوچستان کےشمالی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال زیادہ بن رہی ہے، اسی طرح بلوچستان کے وسطی اور مغربی علاقوں میں بھی خشک سالی کاخطرہ ہے، تاہم وہاں شمالی علاقوں کی نسبت صورتحال زیادہ گھمبیر نہیں ہے، وجہ وہی ہے کہ ان علاقوں میں تھوڑی بہت مون سون کی بارشیں ہوئی ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان کےساحلی علاقوں میں اگرچہ کچھ عرصہ میں ہلکی بارشیں ہوئی ہیں اور یہ کہاجاسکتا ہے کہ ان علاقوں میں تھوڑا ریلیف ملاہے مگر یہ نہیں کہاجاسکتا ہے کہ خشک سالی کاخطرہ ٹل گیا ہے، صرف پنجاب اورسندھ سےملحقہ علاقوں میں صورتحال بہت حدتک بہتر ہے۔

بلوچستان کے شمالی، وسطی اورمغربی حصوں میں خشک سالی اور بارشیں نہ ہونے یابہت کم بارشوں کی وجہ سے زیرزمین پانی پرانحصار بڑھتاجارہاہے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے بیشترعلاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح کہیں تیزی اور کہیں کم گرتی جارہی ہے۔

نصیب اللہ خان کا کہنا تھا کہ خشک سالی سےماحول پر تو انتہائی برے اثرات مرتب ہوہی رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہاں ان علاقوں کی سماج اور معاش بھی شدید متاثر ہورہی ہے، ان علاقوں میں غربت میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ خشک سالی کے باعث کئی علاقوں میں مال مویشیوں کےلئے سبزہ بھی ختم ہورہاہے۔

آئی یو سی این کےقائم مقام سربراہ کا کہناتھا کہ ماحول کےمتاثر ہونےکااندازہ اس سےلگایاجاسکتاہے کہ کوئٹہ کی ہنہ جھیل خشک ہونےاورنوشکی میں زنگی ناوڑ ڈیم میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے سائبیریاسےآنےوالےآبی پرندوں نےاپنارخ کہیں اور موڑ لیاہے۔

محکمہ موسمیات کےڈپٹی ڈائریکٹر طاہرخان کےمطابق بلوچستان کےبیشترعلاقوں میں اس سال بارشیں بہت کم ہوئی ہیں، خاص طور پر مارچ سے اب تک اس قدر بارشیں نہیں ہوئی کہ جو ماضی میں ہوتی رہی ہیں، اس وجہ سے کئی علاقےخشک سالی کاشکارہورہےہیں۔

آئی یو سی این کےنصیب اللہ خان کا کہنا تھا کہ صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے حکومتی سطح پراقدامات ضروری ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ کسی علاقے میں ڈیم تعمیرکرناہی صرف مسئلے کاحل نہیں بلکہ کئی علاقوں میں پانی کوندی نالوں کی طرف قدرتی راستہ بھی دیناہوتاہے، اگرکہیں ڈیم تعمیر کردیاجائےاور وہاں کئی فٹ سلٹ / مٹی پڑی ہوتو ڈیم کافائدہ نہیں ہوگا۔

ان کا کہناتھا کہ ڈیم علاقے کی ضرورت اور ماحول کےحساب سے تعمیر کئے جانےجاہئیں، پشین کےایک علاقے میں ایک کلومیٹر کےاندرتین ڈیم بنادئے گئے ہیں، جہاں کئی کئی فٹ سلٹ /مٹی پڑی ہوئی ہے،،تو ایسے ڈیم میں پانی کیاذخیرہ ہوگا اور وہاں پانی کاری چارج کیسے ممکن ہوگا؟؟

کسی علاقے میں زیرزمین پانی کی سطح اوپرلانے کے لئے زیرزمین پانی کاری چارج بہت ضروری ہے۔ حکومتی سطح پر چیزوں کےبہتر مینجمنٹ کی ضرورت ہے،اس کےساتھ حکومت کو ٹیوب ویلوں پرچیک رکھناہوگا، لوگ بےدریغ ٹیوب ویل لگاتے ہیں اور چوبیس گھنٹے پانی حاصل کرتے ہیں، اس میں سےزیادہ تو ضائع ہی ہوجاتاہے، خشک سالی کی صورتحال کے پیش نظر پانی کامناسب استعمال یقینی بناناہوگا، ہمارے پاس زیرزمین اور بارانی پانی ضائع کرنےکاآپشن نہیں ہے۔

خشک سالی کی صورتحال پر جب صوبائی ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹرجنرل محمدطارق سے بات کی گئی تو ان کا کاکہناتھا کہ صوبے میں ویسے تو اب تک خاص خشک سالی کی صورتحال نہیں ہے تاہم کچھ اضلاع میں خطرہ ضرور موجود ہے، جن علاقوں میں خشک سالی کاخطرہ زیادہ منڈلارہاہے ان میں کوئٹہ ڈویژن، قلات،مکران اورنصیرآباد ڈویژن کےعلاقے شامل ہیں، ان اضلاع کی تعداد تقریبا بیس بنتی ہے۔

ان کا کہناتھا کہ پی ڈی ایم اے کےپاس یہ اطلاعات ہیں کہ اندرون صوبہ بادام ،انگوراورآڑو سمیت مختلف پھلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہےتاہم اب تک کسی ضلع سے سرکاری سطح پر باقاعدہ ایسی رپورٹ نہیں موصول ہوئیں۔

ڈی جی پی ڈی ایم اےکا یہ بھی کہناتھا کہ اگرڈویژن یاضلع کی سطح پر کہیں سے خشک سالی کےحوالےسے باقاعدہ رپورٹس موصول ہوتی ہیں اور کہیں سے مدد اورتعاون طلب کیاجاتاہے تو پی ڈی ایم اے کاادارہ بھرپورمعاونت کےلئے تیار ہے، ہمارے پاس ضروری سامان موجود ہیں ،وہ فوری طور پر متاثرہ علاقوں کو بھجوادیاجائےگا، پی ڈی ایم اے اس حوالےسےپوری طرح سے الرٹ ہے۔