بلاگ
Time 09 ستمبر ، 2017

خارجہ پالیسی کے چیلنجز

—  السٹریشن

خارجہ پالیسی کے محاذپر پاکستان کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں سرفہرست امریکہ اور چین وغیرہ کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے۔ اگرچہ امریکہ کے ساتھ معاملہ پوائنٹ آف نوریٹرن تک نہیں پہنچا اور میرے نزدیک افغانستان سے متعلق امریکہ کے مطالبات اور پاکستان کے خدشات میں موافقت لائی جاسکتی ہے لیکن لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی سے متعلق جارحانہ بیان اور اس میں ہندوستان کے تذکرے کے بعد پاکستانی پالیسی سازوں نے امریکہ کو آنکھیں دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اشاروں کی زبان میں پیغام دیتے ہوئے وزیرخارجہ نے دورہ امریکہ ملتوی کرکے پہلے چین ، روس اور ایران جانے کا فیصلہ کیااور اسی تسلسل میں امریکی نائب وزیرخارجہ کوپاکستان آنے سے منع کردیا گیا۔

روس کو ابھی بھی خدشہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے مثبت اشارہ ملنے یا دباؤ آجانے کے بعد کہیں پاکستان دوبارہ ماضی کی طرح امریکہ کی طرف نہ دوڑ پڑے ۔

وزیردفاع خرم دستگیر کے بیانات اور خواجہ آصف کے دوروں کی صورت میں کیا جارہا ہے لیکن بنیادی طور پر اس پالیسی کی بنیاد آرمی قیادت نے رکھ دی ۔ امریکی سفیر کے ساتھ ملاقات کے بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا جو مختصر مگر جامع بیان آئی ایس پی آر نے جاری کردیا اس نے امریکہ سے منہ موڑکر چین اور روس کی طرف رخ کرنے کی پالیسی کی طرح رکھ دی جس کے بعد اب سیاسی قیادت اس کے اوپر غزل لکھ رہی ہے۔

یوم دفاع کے موقع پر آرمی چیف کی تقریر میں چین کی دوستی کے خصوصی تذکرے ، پاکستان کی طرف سے نومور (No more) کے اعلان اور عالمی برادری کی طرف سے ڈو مور (Do more) کے مطالبے نے تو گویا پالیسی میں اس تبدیلی کے رجحان پر مہرتصدیق ثبت کردی۔

مذہب کو بطور ہتھیار ضرور استعمال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے سوا کوئی بھی ملک مذہبی بنیادوں پر دوستی یا دشمنی نہیں کرتا۔

تاہم اس معاملے میں تین چار چیلنجز درپیش ہیں ۔ پہلا یہ کہ چین امریکہ کو چیلنج کرنے والا ملک ضرور بن گیا ہے لیکن ابھی وہ عالمی فورمز پر اثرورسوخ اور تزویراتی محاذوں پر کردار کے حوالوں سے پوری طرح امریکہ کا متبادل نہیں بنا ہے ۔ دوسرا بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ چین ہندوستان کے معاملے میں تو پاکستان کا ہمنوا ہے لیکن روس اس حد تک نہیں ہے ۔ پاکستان جس رفتار سے امریکہ سے دور ہورہا ہے ، اس رفتار سے روس کے قریب نہیں آیا ہے ۔

دوسری طرف ہندوستان ایک طرف تیز رفتاری کے ساتھ امریکہ کے قریب گیا ہے لیکن دوسری طرف وہ روس سے دور نہیں ہوا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی علاقائی بلاک بنتا ہے تو اس میں ایران کا بھی بنیادی کردار ہوگا لیکن تادم تحریر افغانستان کے حوالے سے ایران ، ہندوستان کاا سٹرٹیجک پارٹنر نظر آتا ہے نہ کہ پاکستان کا ۔

ابھی پاکستان اور ایران کے مابین اعتماد کا وہ تعلق بحال نہیں ہوا جو افغانستان کے تناظر میں ہونا چاہئے ۔ چوتھا چیلنج یہ درپیش ہے کہ امریکہ کے تناظر میں روس کو ابھی پوری طرح پاکستان پر اعتماد نہیں ہے ۔ روس سمجھتا ہے کہ ماضی میں بھی پاکستان کی طرف سے ایسے اشارے دئیے گئے لیکن پھر جب امریکہ کی طرف سے تھوڑی سی عنایت کی گئی تو پاکستان دوبارہ اس کی طرف دوڑ گیا۔

روس کو ابھی بھی خدشہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے مثبت اشارہ ملنے یا دباؤ آجانے کے بعد کہیں پاکستان دوبارہ ماضی کی طرح امریکہ کی طرف نہ دوڑ پڑے ۔

خارجہ پالیسی کا دوسرا اور دائمی چیلنج یہ ہے کہ بحیثیت ریاست ابھی تک ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکے ہیں کہ دنیا کے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد کیا ہوگی۔ ہماری خارجہ پالیسی میں مذہب اور جذبات کا بھی بنیادی کردار برقرار ہے ۔ دوسری طرف دنیا کے ممالک صرف اور صرف قومی مفادات کی بنیاد پر تعلق بناتے اور بگاڑتے ہیں۔

میری ذات معلومات کے مطابق گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان نے افغان طالبان پر پالیسی بدل دی ہے اور اس وقت افغان طالبان کی بیشتر قیادت پاکستان چھوڑ چکی ہے

مذہب کو بطور ہتھیار ضرور استعمال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے سوا کوئی بھی ملک مذہبی بنیادوں پر دوستی یا دشمنی نہیں کرتا۔ اگر مذہب بنیا د ہوتا تو پھر شمالی کوریا اور امریکہ کاجھگڑا نہ ہوتا ۔ اگر مذہب بنیاد ہوتا تو پھر ایران اور سعودی عرب کی جنگ نہ ہوتی ۔ اگر مذہب بنیاد ہوتا تو پھر لادین چین کا قریب ترین اتحادی اسلامی پاکستان نہ ہوتا۔

ہمارا مخمصہ یہ ہے کہ ایک طرف ہم چین جیسے لادین ملک کو قریب ترین اور سب سے بااعتماد دوست سمجھتے ہیں اور سمجھنا بھی چاہئے لیکن دوسری طرف ہم سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ تعلق میں مذہب اور فقہ کو بھی بنیاد بناتے ہیں۔

افغانستان مسلمانوں کا ملک ہے اور اگر مذہب بنیاد ہوتا تو پھر پاکستان اور افغانستان کی کوئی کشیدگی نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن دوسری مذہبی بنیادوں پر ہمیں چین کے زیراثر ملک برما کے خلاف ابھی میدان میں نکلنا پڑر ہا ہے۔ ہم کشمیر اور ہندوستان کے معاملے میں مذہب کو بھی بنیاد بناتے ہیں لیکن دوسری طرف دشمن ملک ہونے کے ناطے ہمیں ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کی موجودگی سے صرف نظر کرنا پڑا ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اس مخمصے کا حل نکالنا ہوگا۔

افغانستان کے معاملے میں پاکستان کی قربانیوں کا کوئی شمار نہیں ۔ امریکہ جس طرح ہندوستان کووہاں مختار بنانا چاہتا ہے اس حوالے سے پاکستان کی شکایت بالکل جائز ہے ۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ہندوستان افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے اور افغان حکومت اس حوالے سے پاکستانی شکایات کا ازالہ نہیں کرسکی لیکن المیہ یہ ہے کہ افغانستان کے ضمن میں امریکہ جو الزام پاکستان پر لگا رہا ہے ، اس میں خود متاثرہ فریق یعنی افغانستان بھی اس کا ہمنوا ہے اور وہ بھی دنیا کا یہ باور کرارہا ہے کہ اس کی بدحالی کی بنیادی وجہ پاکستان کی طالبان کے ساتھ مبینہ سپورٹ ہے ۔

میری ذات معلومات کے مطابق گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان نے افغان طالبان پر پالیسی بدل دی ہے اور اس وقت افغان طالبان کی بیشتر قیادت پاکستان چھوڑ چکی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یورپ اور دنیا کے کئی دیگر ممالک بھی اس معاملے میں امریکہ اور افغان حکومت کے ہمنوا ہیں۔

اسی طرح چین اور روس خطے سے متعلق امریکی ارادوں سے متعلق پاکستان کے ساتھ ہیں لیکن افغان طالبان اور عسکری تنظیموں سے متعلق وہ دونوں بھی ہماری پالیسیوں کو درست نہیں سمجھتے ۔ ڈونلڈٹرمپ کے بیان کے بعد جب چینی وزارت خارجہ کا پاکستان کے حق میں ردعمل سامنے آیا اور حکومت پاکستان کے ترجمان اور دفاعی ماہرین بغلیں بجا رہے تھے تو اسی وقت یعنی اگست کے آخری ہفتے میں روزنامہ جنگ میں 26 اگست کو ’’امریکہ کی افغان پالیسی ‘‘کے زیرعنوان ’’جرگہ‘‘ میں عرض کیا تھا کہ ’’ چین اور روس ہمارے ساتھ ہیں لیکن طالبان کے معاملے میں وہ دونوں بھی پوری طرح ہمارے موقف کے قائل نہیں ‘‘۔

ہماری خارجہ پالیسی کی مہار اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے مگر خواجہ آصف صاحب اور عسکری اداروں کی سوچ میں بعدالمشرقین ہے ۔

تب تو اس عاجز کی اس صدا پر دھیان نہیں دیا گیا لیکن اب برکس کے مشترکہ اعلامیہ میں افغان طالبان ، حقانی گروپ اور لشکرطیبہ وغیرہ کے ذکر سے شاید بغلیں بجانے والوں کو سمجھ آگیا ہوگا۔ ہمیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئے کہ چین سفارتی اور اخلاقی حد تک تو پاکستان کا ساتھ دے گا لیکن وہ اس دوستی کی خاطر امریکہ یا افغانستان کے ساتھ کسی تنازع یا تصادم کا رسک کبھی نہیں لے سکتا ۔

چین اپنے تائیوان اور ہانگ گانگ جیسے معاملات پر تصادم سے گریز کرتا ہے تو کسی دوست ملک کی خاطر وہ کسی بڑی طاقت یا افغانستان جیسے پڑوسی سے کیوں کر تصادم کی طرف جائے گا۔ ہمیں یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ ٹرمپ کی تقریر کے بعد چینی وزارت خارجہ نے جس بیان میں پاکستان کی حمایت کی ، اسی بیان میں آگے جاکر چین نے پاکستان اور امریکہ کی ا نگیج منٹ پر بھی زور دیا ہے ۔

سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ مذکورہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سردست ہم داخلی محاذ پر تیار نہیں۔ ہماری وزارت خارجہ گزشتہ چار سالوں میں بدترین بحران سے دوچار رہی ۔ منصب کے لحاظ سے سرتاج عزیز صاحب بڑے تھے لیکن چونکہ خوشامد اور چاپلوسی میں طارق فاطمی صاحب آگے تھے ، اس لئے سرتاج عزیز صاحب کو کھڈے لائن لگا دیا گیا تھا۔ ان دونوں کی کشمکش سے وزارت خارجہ بدحالی سے دوچار رہی ۔

دوسری طرف فاطمی صاحب پر عسکری ادارے اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ یوں ان سالوں میں دفتر خارجہ کی پوزیشن ڈاک خانے سے زیادہ نہیں تھی۔ دوسری طرف جو اندرونی لڑائیاں رہیں ، اس کا اندازہ امریکہ میں پاکستان کے سفیراعزاز چوہدری اور ہندوستان میں پاکستان کے سفیرکے منصب سے سبکدوش ہونے والےعبدالباسط کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔

اب اس نازک وقت میں خواجہ آصف صاحب کو وزیر خارجہ بنایا گیا۔ ان کے ذہین ، محنتی اور بڑے سیاستدان ہونے میں کوئی کلام نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کو خارجہ امور کا نہیں بلکہ داخلی اور سیاسی امور کا تجربہ حاصل رہا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی مہار اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے مگر خواجہ آصف صاحب اور عسکری اداروں کی سوچ میں بعدالمشرقین ہے۔

وہ میاں نوازشریف کے خاص بندے سمجھے جاتے ہیں اور اس وقت عسکری اداروں اور میاں صاحب کے مابین جو تناؤہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ مجھے اگر ناممکن نہیںتو مشکل ضرور نظر آتا ہے کہ خواجہ آصف صاحب عسکری اداروں کے ساتھ اعتماد کا مطلوبہ تعلق استوار کرسکیں۔ 

دوسری طرف حالات کا تقاضا ہے کہ کم از کم خارجہ امور کے معاملے میں سول اور ملٹری قیادت جزیات کی حدتک ایک صفحے پر آجائیں ۔ میرے نزدیک یہی سب سے بڑا چیلنج ہے اور اگر اس چیلنج سے نہیں نمٹا جاتا تو مذکورہ چیلنجز سے نمٹنا مشکل ہوگا ،اس تناظر میں یہ مہم جوئی خاکم بدہن پاکستان کو مہنگی پڑسکتی ہے۔اگر مہم جوئی کرنی ہی ہے تو پھر اسکے لئے گھرکے اندر بھرپور تیاری کرلیجئے اور اس تیاری کی بنیاد سول ملٹری ہم آہنگی ہی ہے۔


سینئر صحافی سلیم صافی کا یہ کالم روزنامہ جنگ میں 9 ستمبر 2017 کو شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔