Time 20 ستمبر ، 2017
بلاگ

عمران خان کو اقتدار دیں

خدا لگتی کہتا ہوں اب اقتدار عمران خان کا حق ہے۔ نواز شریف نااہل ہوچکے اور ان کے بعد عمران خان ہی مقبول ترین رہنما ہیں۔ اس لئے فوراً الیکشن کر وا کر زمام اقتدار ان کے حوالے کریں تاکہ عوام کی براہ راست منتخب اور محبوب لیڈرشپ بحرانی دور کے بڑے بڑے فیصلے کرسکے۔

4 سال پہلے پاکستانیوں کی اکثریت نے نواز شریف کو وزیراعظم بنا کر ملک و قوم کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا تھا اب جبکہ وہ گھر جاچکے ہیں تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو براہ راست عوام کا یہ اعتماد حاصل نہیں کہ وہ بحرانی دور میں بڑے فیصلے کرسکیں۔

یوں اس وقت ایک کمزور ترین جمہوری حکومت ہے جو بڑے حکومتی فیصلے نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم عباسی کبھی نواز شریف سے ملنے جاتے ہیں اور کبھی بیچارے طاقت کے دوسرے مراکز میں اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس مشکل سے نکالیں فوراً الیکشن کا ڈول ڈالیں اور نئی منتخب حکومت کو بڑے فیصلے کرنے دیں۔

پاکستان میں برطانیہ کی طرح کا پارلیمانی نظام ضرور قائم ہے لیکن یہاں پارٹی حکومت نہیں بلکہ شخصی حکومت ہوتی ہے۔ لوگوں نے ن لیگ کے نشان کو ضرور ووٹ دیا تھا لیکن مقصد نواز شریف کو اقتدار میں لانا تھا اب جب نواز شریف نااہل ہو گئے تو اب ان کی جگہ پارٹی میں سے کسی بھی ڈمی کو وزیراعظم بنانا انصاف نہیں اس اقتدار سے ن لیگ کو تو سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے عوام کو کیا ملے گا؟

جمہوریت ایک تسلسل کا نام ہے۔ جب ایک گھوڑا رُک جائے، ناکارہ ہو جائے یا تھک جائے تو نظام کو چلانے کے لئے تازہ دم گھوڑے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ افکار ِ تازہ سے ملکی مسائل حل کرے۔ اب وہ وقت ہے کہ نئی قیادت کو موقع دیا جائے

ن لیگ کے تو مزے ہی مزے ہیں۔ وفاقی حکومت بھی ان کی، پنجاب کی صوبائی حکومت بھی ان کی اور تو اور وہ اپوزیشن بھی خود ہی بن گئے ہیں۔ حکومتی مراعات کا لطف بھی اٹھا رہے ہیں اور اپوزیشن ہونے کا سیاسی فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان نے تاریخ ساز فیصلے کرنے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا ساتھ دینا ہے یا غیرجانبدار رہنا ہے، الیکشن کب کروانا ہے، نگران حکومت میں کون ہوگا؟ نیب کا اگلا سربراہ کون ہوگا وغیرہ وغیرہ۔

دل پرہاتھ رکھ کر بتائیں کہ عوام نے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو کب مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ ملک کی قسمت کے بارے میں اتنے بڑے بڑے فیصلے کریں۔ لوگوں نے تو نواز شریف کو اس کام کے لئے چنا تھا۔ اب وہ نہیں تو دوسرا مقبول ترین لیڈر عمران خان ہے۔

بڑے فیصلے کرنے ہیں تو عمران خان کو لائیں۔ وہی یہ فیصلے کرے تاکہ ان بڑے فیصلوں میں عوامی خواہشات کی ترجمانی بھی ہو۔ شاہد خاقان عباسی عملی آدمی ہیں۔ بھلے شخص ہیں مگر وہ ایک کمزور سیاسی حکومت کے سربراہ ہیں۔ انہیں پاکستان کے مستقبل کے بار ےمیں فیصلہ کرنے کا اختیار دینا ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔

مجھے یہ کہنے دیجئے کہ عمران خان کو اقتدار میں نہ لا کر ہم جنرل یحییٰ خان والی غلطی دہرا رہے ہیں۔ انہوں نے الیکشن کروانے کے بعد انتقال اقتدار میں اتنی دیر لگا دی کہ ملک ہی بکھر گیا۔

اب الیکشن کروانے میں اتنی دیر کی جارہی ہے کہ لیڈر شپ کا حوصلہ ہی ٹوٹ جائے اور وہ الیکشن تک کا لمبا فاصلہ طے کرتے کرتے ہانپ جائے۔ جمہوریت ایک تسلسل کا نام ہے۔ جب ایک گھوڑا رُک جائے، ناکارہ ہو جائے یا تھک جائے تو نظام کو چلانے کے لئے تازہ دم گھوڑے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ افکار ِ تازہ سے ملکی مسائل حل کرے۔ اب وہ وقت ہے کہ نئی قیادت کو موقع دیا جائے۔

برصغیر کی مشہور رزمیہ کہانی ’’مہا بھارت‘‘ کی دروپدی کے پانچ پانڈو شوہر دکھائے گئے ہیں۔ ہمارے محبوب وزیراعظم خاقان عباسی کو بھی کئی شوہروں کو خوش رکھنا ہے۔ اس لئے وہ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکیں گے۔ صرف قوم کا وقت ضائع ہوگا۔

گومگو ختم کرنی ہے، کنفیوژن اُڑانا ہے تو پھر فوراً الیکشن کروائیں۔ عمران جیتیں تو ان کو وزارت ِ عظمیٰ دیں تاکہ وہ ملک کو چلائیں۔ ایک سال کا انتظار کیوں؟ یہ سراسر غلط، غلط اور غلط فیصلہ ہے۔

عمران خان کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اس نے اپنی حکومت کا لائحہ عمل طے کر رکھا ہے۔ اقتدار آنے کی دیر ہے کہ چند مہینوں میں نقشہ بدل جائے گا۔ اس نے دنیا بھر میں 100 ایسے ٹیکنوکریٹ پاکستانی چن رکھے ہیں جنہیں وہ پاکستان واپس بلا کر مختلف اداروں اور محکموں کا انچارج بنادے گا کیونکہ وہ ان ہی شعبوں کے ورلڈ کلاس ماہرین ہیں۔

عمران خان کو اچھی طرح علم ہے کہ کون پی آئی اے کو ٹھیک کرسکتا ہے اور کون بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پا سکتا ہے، فنانس کو کس نے دیکھنا ہے اور معاشی اصلاحات کون کرسکتا ہے؟ بات صرف موقع کی ہے کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ یہ موقع دیا جائے؟

4 سال پہلے پاکستانیوں کی اکثریت نے نواز شریف کو وزیراعظم بنا کر ملک و قوم کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا تھا اب جبکہ وہ گھر جاچکے ہیں تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو براہ راست عوام کا یہ اعتماد حاصل نہیں

عمران خان کیس کی حمایت کوئی اتنی مشکل بھی نہیں۔ وہ بنا بنایا ہیرو ہے۔ 1992 کا ورلڈ کرکٹ کپ جیت چکا ہے، شوکت خانم کے ذریعے ادارہ سازی میں اپنا سکہ جما چکا ہے، جلسے اور جلوس اس کے بڑے ہیں۔ محب وطن وہ سب سے زیادہ ہے۔ لوگ اس کے ساتھ ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بڑا اختلاف نہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ اقتدار عمران کا حق ہے اور اسے دیا جائے تاکہ وہ نیا پاکستان بنا سکے۔

عمران آئے گا تو پاکستان پر ہُن برسے گا، بیرون ملک آباد پاکستانی عمران خان اور تحریک ِ انصاف پر جان چھڑکتے ہیں۔ بڑھ چڑھ کر پارٹی فنڈ دیتے ہیں۔ عمران خان کے برسر اقتدار آتے ہی یہ سب لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے اور یوں پاکستان کی معاشی حالت بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے گی۔ توقع یہی ہے کہ عمران خان کرپشن کے خلاف ایک موثر نظام بنائیں گے جس میں انتقام نہیں بلکہ واقعی احتساب ہوگا۔

یادش بخیر 2013 کے الیکشن سے پہلے صرف پی ٹی آئی ہی نہیں امریکی اور برطانوی سفارتکاروں کابھی یہ خیال تھا کہ عمران خان وزیراعظم بن رہے ہیں اگر وہ اس وقت عمران خان کے وزیراعظم بننے کی توقع کر رہے تھے تو اب بھی امید ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنالیں گے۔

کوئی کچھ بھی کہے عمران خان پاکستانیت کے بارے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں۔ وہ اقوام عالم میں ڈٹ کر اپنا موقف پیش کریں گے۔ نئی افغان جنگ پر امریکہ سے ڈیل کی ضرورت پڑی تو وہ ٹرمپ سے باعزت اورمنافع بخش ڈیل کریں گے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرح سستے داموں آگ کے شعلوں میں نہیں کو دیں گے۔

وہ سول اور ملٹری تعلقات کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ طرز ِ حکمرانی میں تبدیلی لانا تو ان کی مجبوری ہوگی کیونکہ وہ سب سے زیادہ تنقید اسی پر کرتے رہے ہیں۔ بھارت میں ان کی بہت دوستیاں بھی ہیں اور ان کے وہاں پرستار بھی بہت ہیں۔ وہ بھارت سے مذاکرات کا کوئی راستہ بھی نکال سکتے ہیں۔

خدشہ بس ایک ہے کہ ان کا مزاج برہم ہوا تو میڈیا پر سختی نہ شروع کردیں۔ میڈیا کی آزادی بھی گڈگورننس کا حصہ ہے اس پر انہیں ضرور غور کرنا چاہئے۔

آخر میں عرض ہے کہ بطور اپوزیشن کے مقبول حکمران، حکمرانی کا تاج ان کی جھولی میں پڑا ہے بس اپنی مینجمنٹ اتنی تو بہتر کرلیں کہ جھولی سے اٹھا کر تاج کو اپنے سر پر رکھ لیں۔


یہ کالم 20 ستمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔