22 ستمبر ، 2017
لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کسی بھی طرح سے عام انتخابات سے کم نہیں تھے۔ اس معرکہ میں مسلم لیگ نواز نے بھرپور زور لگایا اور مریم نواز نے ایک بھرپور اور کامیاب انتخابی مہم چلائی۔
گو کہ اس نشست پر ہمیشہ ہی مسلم لیگ ن کا امیدوار کامیاب ہوتا رہا ہے تاہم میاں نواز شریف کے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد مسلم لیک ن نے اس سیٹ کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا اور بنانا بھی چائیے تھا کیوں کہ اس حلقے سے مسلم لیگ ن کی ہار کا براہ راست اثر 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں پڑنے کا خدشہ تھا۔
انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے تو تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کی برتری کی خبریں آئیں۔ ابتدائی 10 فیصد نتائج جن پولنگ اسٹیشنز سے آئے ان میں پی ٹی آئی کو مسلم لیگ نواز پر واضح برتری حاصل تھی۔
مجھے ایک وفاقی وزیر کا فون آیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، یہ نتیجہ دیکھ کر ہمارا تو بلڈ پریشر بڑھ رہا ہے۔ تاہم جوں جوں نتائج آتے گئے اور کلثوم نواز نے جیتنا شروع کیا تو ن لیگی رہنماؤں کے بلڈ پریشر بھی ٹھیک ہونا شروع ہوگئے۔
ان انتخابات میں تحریک انصاف نے بھی سیٹ جیتنے کی بھرپور کوششیں کیں اور سردھڑ کی بازی لگادی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اور ان کی پارٹی کے کارکنوں نے ووٹرز کو اپنے حق میں کرنے کے لیے گھر گھر گئے۔ ان کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ نشست جیتنے کی صورت میں ان کو 2018 کے عام انتخابات میں بہت فائدہ ہوگا۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بھی جلسہ منعقد کیا اور ریلی بھی نکالی لیکن ان کی امیدوار کامیاب نہ ہو سکیں ۔
اس الیکشن میں بیگم کلثوم نواز کامیاب تو ہو گئیں تاہم مسلم لیگ ن کو پہلے کے مقابلے کم ووٹ ملے اگر 2013 کے عام انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو ن لیگ نے 13 فیصد کم ووٹ لیے۔دوسری جانب تحریک انصاف کو بھی 4 فیصد کم ووٹ کم ملے۔
یہ بات درست ہے کہ ضمنی انتخاب میں عام انتخابات کے مقابلے میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم ہوتی ہے لیکن ہم اس جائزے میں بات ڈالے گئے ووٹوں کے حوالے سے کر رہے ہیں اور ان میں ن لیگ کے ووٹوں کی تعداد میں زیادہ کمی واقع ہوئی۔
مسلم لیگ نواز نے ووٹ کم ملنے کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا، مریم نواز نے کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں کارکنوں کے اغواء کے الزامات بھی لگا دیے۔ اہم لیگی رہنماوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان کے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن جانے سے روکا گیا جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات میں کچھ آزاد امیدواروں کو کھڑا کرکے ان کے 12 ہزار ووٹ کم کروا دیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن تنظیموں پر پابندی ہے ان کی سیاسی جماعت کے بینر تلے امیدوار الیکشن میں کس طرح کھڑے ہوگئے؟
مجھے یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ وفاقی حکومت بھی ن لیگ کی ہے اور وزیر داخلہ بھی احسن اقبال ہوں تو کیا یہ ان کا کام نہیں کہ ایسے لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکتے؟
وزارت داخلہ کیا کر رہی تھی اور اس نے ان امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا کیوں نہیں اور اب "اسٹیبلشمنٹ" کو مورد الزام ٹہرانے کا مقصد کیا ہے؟
اگر اس الزام کو درست تسلیم کر لیا جائے تو مسلم لیگی رہنماؤں کو سوچنا چاہیے کہ اگر "اسٹیبلشمنٹ" ن لیگ کے 12 ہزار ووٹ کم کرواسکتی ہے تو وہ آئندہ عام انتخابات میں ن لیگ کو کتنی سیٹوں سے محروم کروا سکتے ہیں۔ ایسی تمام نشستیں جو انہوں نے بارہ ہزار یا اس سے کم برتری سے جیتی تھیں۔
ن لیگ کو اگر نہیں معلوم تو ہم انہیں بتاتے دیتے ہیں۔ 2013 کے الیکشن میں 16 نشستیں ایسی ہیں جو 12 ہزار ووٹ کم ہوجانے سے خطرے میں نظر آتی ہیں۔ سب سے پہلے ان میں این اے 104 کی سیٹ ہے جس پر چودھری شجاعت حسین کے بھائی چودھری وجاہت حسین 3 ہزار 8 سو ووٹوں سے ہارے تھے۔
حال ہی میں لاہور کے حلقہ این اے 122 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ایاز صادق تحریک انصاف کے علیم خان سے صرف ڈھائی ہزار ووٹوں سے جیتے تھے۔
اس کے علاوہ این اے 164 پاکپتن میں ن لیگ کے رائے منصب علی ڈوگر 2 ہزار 3 سو ووٹوں سے کامیاب ہوئے، این اے 57 اٹک سے شیخ آفتاب احمد 3 ہزار 9 سو ووٹوں سے جیتے جبکہ فاٹا کے حلقےاین اے 41 میں ن لیگ کے غالب خان 11صرف سو ووٹ کی برتری سے جیتے تھے۔ میرے نزدیک تو یہ کہنا ہی غیر جمہوری عمل ہے کہ فلاں کے انتخابات لڑنے سے ہمارے 12 ہزار ووٹ کم ہو گئے۔
یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں ہر وہ شخص جس کا نام ووٹر لسٹ میں شامل ہو وہ کسی جماعت یا آزاد حیثیت سے انتخابات لڑ سکتا ہے ۔ تاہم کالعدم تنظمیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ حق حاصل نہیں ہے اور وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے چاہے وہ کسی نئے نام سے سیاسی جماعت رجسٹر کروا لیں۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وزارت داخلہ فوری ایکشن لے کر انہیں روک سکتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ کلعدم تنظیم کا رکن خاموشی سے الیکشن میں حصہ لے لیتا ہے اور چوں کہ ایسی تنظیموں کو ہر حلقے میں اپنے کارکنان کا پتہ ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ کون ان کا ساتھی ہے تو وہ اس شخص کو ووٹ دے دیتے ہیں ۔
لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایسی انتہا پسند یا دہشت گرد تنظمیوں کے لوگوں کو انتخابات سے دور رکھنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور کیوں کہ ایسے تمام افراد اور کالعدم جماعتوں کے بارے میں مکمل معلومات وزارت داخلہ کے پاس ہوتی ہیں اور وہ سارے نام ان کی واچ لسٹ میں ہوتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔