25 ستمبر ، 2017
موت اور سفر کے منفرد علامتی شاعر منیر نیازی نے بالکل درست کہا تھا کہ کچھ تو شہر کے لوگ ظالم ہیں اور کچھ ہمیں مرنے کا شوق بھی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا بھی ہم نے یہ حال بنا دیا ہے دس سال گزر گئے اور ہم ایک دوسرے کو قاتل کہہ رہے ہیں جبکہ اصل ملزم ناکافی شہادتوں کی وجہ سے بری قرار دیئے گئے ہیں۔
مجھے تحقیق کا دعویٰ نہیں مگر ایک سنجیدہ طالب علم کی حیثیت سے میں نے اس ملک کے سب سے بڑے سیاسی قتل کی تفتیش، انکوائری اور حالات وواقعات کا بغور جائزہ لیا پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس، جے آئی ٹی کی رپورٹ، اسپیشل برانچ پنجاب کی رپورٹ، یو این انکوائری رپورٹ اور اسکاٹ لینڈ یارڈ سب کا مطالعہ کیا تفتیش کاروں اور اس واقعہ کے 100مختلف کرداروں سے ملا اور تقریباً تین سال کی محنت کے بعد 750صفحات پر مشتمل کتاب ’’قاتل کون؟‘‘ لکھی (اس کا انگریزی ترجمہ دی بھٹو بلڈ اور سندھی ترجمہ قاتل کیر کے نام سے شائع ہو چکا ہے) تاکہ عام پاکستانی کو ہر خفیہ گوشے اور ہر سازشی کہانی کے بارے میں صحیح علم ہو سکے ۔
ظاہر ہے کہ یہ کتاب اس موضوع پر حرف آخر نہیں بلکہ پہلا قطرہ تھی۔ یہ کتاب لکھنے کے بعد سے میں ہمیشہ یہ رائے دیتا رہا ہوں کہ جتنی صحیح اور مکمل اس مقدمے کی تفتیش ہوئی ہے پاکستان کے کسی مقدمہ قتل کی نہیں ہوئی ایک ایک چیز واضح ہے لیکن اس کے باوجود اگر ہم قاتلوں کو انجام تک نہ پہنچا سکیں اور ایک دوسرے کو پھنسانے کے لئے الزام تراشی کرتے رہیں تو اس سے مقدمہ کی پراسراریت میں تو اضافہ ہو گا مگر اصل سازشی اور قاتل بچ نکلیں گے۔
سیاست اور جرم میں فاصلہ ہونا چاہئے محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ایک بہت بڑا جرم تھا اسے سیاست کی نذرکرنا ریاست کی خیر خواہی نہیں
آصف زرداری کا جنرل مشرف پر الزام اور جواباً جنرل مشرف کا زرداری پر الزام، دونوں کے پیچھے سیاست کارفرما ہے دونوں کا قتل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ پاکستانی ایجنسیوں کی کسی رپورٹ میں صدر مشرف کا ذکر نہیں البتہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں جنرل مشرف کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو مناسب سیکورٹی نہ دینے پر ذمہ دار قرار دیا گیا ہے بعض باوردی افسران کے نام بھی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تھے مگر صدر آصف زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھ کر رپورٹ کے اس حصے پر اپنے تحفظات ظاہر کر دیئے ،یوں ریاست پاکستان نے اقوام متحدہ رپورٹ پر من وعن عمل کرنے سے انکار کر دیا اسی بنا پر اقوام متحدہ کے تفتیش کار ہیرالڈومیونیز نے ’’قتل کرکے بچ نکلے‘‘ نامی کتاب لکھ ڈالی۔
پاکستانی ایف آئی اے نےجنرل مشرف کا اس مقدمے کے حوالے سے باقاعدہ بیان ریکارڈ کیا اور چالان میں ان کا نام شامل کیا مگر ظاہر ہے یہ سیکورٹی میں غفلت کی وجہ سے ہے قتل کی براہ راست منصوبہ بندی میں ان کا نام کبھی بھی نہیں آیا۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے مخالفین پہلے دن سے آصف زرداری کو ممکنہ قاتل قرار دینے پر مصر ہیں پاکستان و برطانیہ اور اقوام متحدہ کی تفتیش کار ایجنسیوں میں سے کسی ایک نے بھی براہ راست یا بالواسطہ اس قتل میں آصف زرداری کو ملوث قرار نہیں دیا۔البتہ رحمٰن ملک اور بابر اعوان کی طرف سے محترمہ کی دوسری بلٹ پروف گاڑی بھگا لے جانے ، خالد شہنشاہ کے پراسرار اشاروں، مجرمانہ ریکارڈ، پراسرار موت اور محترمہ کا پوسٹ مارٹم نہ کروانے کے حوالے سے بالواسطہ طور پر آصف زرداری پر غیر تفتیشی عناصر نے انگلیاں ضرور اٹھائیں لیکن ان سب سازشی کہانیوں میں سے ایک میں بھی کوئی مستند ثبوت نہیں ملا۔ آصف زرداری پر شک کیا جاتا ہے کیونکہ قتل کا فائدہ انہیں ہوا ہے لیکن ان کے خلاف نہ کوئی گواہی ہے اور نہ کوئی اشارہ۔
پاکستان اور دنیا بھر کے تفتیش کاروں نے محترمہ بےنظیر بھٹو کے قتل کا جو نقشہ بنایا اور جس کے سائنسی ثبوت موجود ہیں وہ کچھ یوں ہیں کہ 15سالہ سعید عرف بلال کو خودکش بمبار کے طور پر راولپنڈی لایا گیا سعید عرف بلال کے جسم کے جو حصے ملے ان کا ڈی این اے کروایا گیا تو علم ہوا کہ وہ وزیرستان کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا واقعہ کے روز کے تمام موبائل فون ڈیٹا کو جمع کیا گیا اور بالآخر دو سہولت کار ڈھونڈ لئے گئے جو سعید عرف بلال اور ایک دوسرے ممکنہ خودکش بمبار کو لیکر آئے تھے یہ سہولت کار رفاقت حسین اور حسنین گل (دونوں جیل میں ہیں مگر عدالت انہیں بری کر چکی ہے)ایک ٹیکسی میں سعید عرف بلال کو لیاقت باغ راولپنڈی چھوڑ گئے۔
آصف زرداری کا جنرل مشرف پر الزام اور جواباً جنرل مشرف کا زرداری پر الزام، دونوں کے پیچھے سیاست کارفرما ہے دونوں کا قتل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔
رفاقت حسین کی اپنی ٹیکسی تھی اور یہ اس سے پہلے عکرمہ نامی ایک یوریشن خود کش کا سہولت کار بھی تھا جو شیخ رشید کو ہٹ کرنا چاہتا تھا مگر جب وہ نہ ملے تو وہ چیئرمین جوائنٹ آف اسٹاف کے گھر کے سامنے جاکر پھٹا۔رفاقت حسین اور حسنین گل کا تعلق جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ان طالبان سے تھا جو بیت اللہ محسود کے حلقہ اثر میں تھے اور مختلف کارروائیوں کے لئے سہولت کار بنتے تھے بلکہ انہیں یہ ٹاسک سونپا جاتا تھا ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے ان دو منصوبہ سازوں قاری نادر عرف اسماعیل اور نصراللہ عرف احمد کو بھی ڈھونڈ نکالا جنہوں نے خودکش بمبار کو ذہنی طور پر تیار کرکے اور خودکش جیکٹ دے کر راولپنڈی بھیجا تھا یہ منصوبہ ساز عسکری ایجنسیوں نے ہی گرفتار کئے ان سے تفتیش کی اور پھر ایک روز انہی ایجنسیوں سے ایک مقابلے میں مار دیئے گئے۔
ان منصوبہ سازوں کا براہ راست تعلق طالبان کے شدت پسند گروہ سے تھا جس کا اتحاد القاعدہ سے تھا اور یہ اپنی ہدایات براہ راست ایمن الظواہری سے لیتے تھے یہی وجہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری ایمن الظواہری نے خود بین الاقوامی اطلاعاتی اداروں کو فون کرکے قبول کی۔ قتل کی براہ راست ذمہ داری کا تعین تو ہو چکا اب صرف بحث طلب معاملہ یہ ہے کہ کیا براہ راست ذمہ داران کے پیچھے بھی کوئی بالواسطہ ذمہ داران ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو براہ راست ذمہ دار ہیں اور ان کا سب کو علم ہے پہلے انہیں سزاملے پھر جو بالواسطہ ذمہ دار ہیں بعد میں ان کی باری آ سکتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا حساب لینا ریاست اور قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے مگر اس حوالے سے غیر ذمہ داری اور بزدلی کا مسلسل مظاہرہ کیا گیا کئی گواہ ہی پیش نہیں ہوئے جج خوفزدہ رہے اوپن ٹرائل کی بجائے جیل کی چار دیواری میں مقدمہ چلا ایک پرعزم پراسیکیوٹر کو قتل کر دیا گیا اور اسکی ذمہ داری بھی براہ راست القاعدہ نے قبول کی۔
پیپلز پارٹی نے دس سال میں مقدمے کی پیش رفت کے حوالے سے کبھی غیر معمولی دلچسپی نہیں لی یہ سب وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے قاتل ابھی تک سزا نہیں پا سکے اور یوں قوم کے احساس جرم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ ہم انہیں بھی سزا نہیں دے سکتے جو دن دیہاڑے ہماری لیڈر شپ کو قتل کر گئے ؟
سیاست اور جرم میں فاصلہ ہونا چاہئے محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ایک بہت بڑا جرم تھا اسے سیاست کی نذرکرنا ریاست کی خیر خواہی نہیں بلکہ بدخواہی ہے چاہے زرداری صاحب ہوں یا مشرف صاحب وہ اپنی سیاسی مخالفت کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کو ڈھال نہ بنائیں اگر انہوں نے ایک دوسرے سے سیاست بازی کرنی ہے تو کوئی اور معاملہ یا موضوع ڈھونڈ لیں تاکہ محترمہ کے اصل قاتلوں کو سزا مل سکے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مقدمہ سیاسی قتلوں کے دوسرے مقدمات کی طرح مغالطوں میں معلق رہے اور تاریخ بالواسطہ قاتلوں کو ہی اصل قاتل قرار دیدے۔
یہ کالم 23 ستمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔