26 ستمبر ، 2017
سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ انہیں نااہل کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا جس کے لئے اقامہ کی آڑ لی گئی تاہم حالات کی سنگینی کا سامنا پہلے بھی کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔
پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ عدالتوں سے فرار ہونا ہمارا طریقہ نہیں، ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کے لئے کردار ادا کیا لیکن جانتا ہوں کہ کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ جانتا ہوں اصل جرم کیا ہے لیکن عوام کے ساتھ کھڑا رہوں گا، پاکستان کے تحفظ اور ترقی کی قسم کھائی ہے اور اپنے عہد وفا کے لئے جو بھی قربانی دینا پڑے اس سے گریز نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پاناما کیس پہلا کیس ہے جس میں دفاع کرنے والے کے تمام آئینی و قانونی حقوق سلب کرلئے گئے اور بار ثبوت مدعی کے بجائے ہم پر ڈال دیا گیا۔
انہوں نے کہا 'عدالت نے پراسرار طریقے سے جے آئی ٹی بنائی اور اس کی نگرانی بھی کی جب کہ اسی عدالت نے سارے ضابطے توڑ کر نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا'۔
نواز شریف نے کہا کہ اسی عدالت نے نیب کا کنٹرول سنبھال لیا اور احتساب کورٹ کی نگراں بھی بن گئی، کیا ایسا ہوتا ہے انصاف اور کیا اسے کہتے ہیں قانون کی پاسداری۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سامنے کئی بار پیش ہوئے جنہیں واٹس ایپ کالوں کے ذریعے چنا گیا، جے آئی ٹی میں وہ 'ہیرے' بھی تھے جن کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں اور سپریم کورٹ بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی۔
نواز شریف نے کہا کہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ انصاف اور قانون کے تقاضے کس بری طرح پامال ہورہے ہیں لیکن ہم کارروائی میں شامل رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بالاخر فیصلہ یہ آیا کہ ایک پائی کی کرپشن، رشوت، بدعنوانی، کک بیک یا اختیارات کا غلط استعمال ثابت نہیں ہوا، فیصلے کو آئینی اور قانونی ماہرین نے نہیں مانا تو میں کیسے مان لوں۔
نواز شریف نے کہا کہ 'کہا گیا آپ کو پاناما میں سزا نہیں دی جاسکتی اس لئے اقامہ کی آڑ لی گئی'، قوم کو بتا تو دیتے پاناما پر کچھ نہیں ملا اس لئے اقامہ پر سزا دی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بھی امید ہے کہ کہیں نہ کہیں انصاف ضرور ہے، بظاہر نشانہ ان کی ذات اور خاندان ہے لیکن سزا سارے پاکستانیوں اور ان کی آنے والی نسلوں کو مل رہی ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ فیصلوں کی ساکھ نہ رہے تو عدالتوں کی ساکھ بھی نہیں رہتی، ہماری تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری ہے جسے بیان کرتے ہوئے ندامت ہوتی ہے، اہلیت اور نااہلیت کے فیصلے 20 کروڑ پاکستانیوں کو کرنے دو ان سے ان کا یہ آئینی حق نہ چھینا جائے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں ایک فیصلہ آئے گا جو عظیم ہوگا اور مولوی تمیز الدین جیسے فیصلوں کو بہا لے جائے گا۔
نواز شریف نے کہا کہ 70 سالہ پرانے کینسر کا علاج تجویز کرنا ہوگا اور اگر کینسر کا علاج نہ ہوا تو ڈر ہے کہ پاکستان کسی سانحہ کا شکار نہ ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ جھوٹ پر مبنی بے بنیاد مقدمے لڑ رہا ہوں لیکن حقیقی مقدمہ لڑنے کا تہیہ کرلیا اور یہ مقدمہ قائداعظم کے پاکستان، آئین و قانون ، جمہوریت اور آئین کے حق حکمرانی، ووٹ کے تقدس اور 70 برس کے دوران نشانہ بننے والے وزرائے اعظم کا مقدمہ ہے، مجھے یقین ہے کہ آخری فتح عوام اور پاکستان کی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم جان چکی ہے کہ ان کی نااہلی کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ انہوں نے جو تنخواہ بیٹے سے وصول نہیں کی، وہ ان کا اثاثہ تھی اور وہ اثاثہ ظاہر نہ کر کے خیانت کی لہذا صادق اور امین نہیں رہا۔ کاش میرے اثاثے کھنگالنے والوں کی نظر کچھ اور اثاثوں پر بھی پڑتی جو ان کے سیاسی اکاؤنٹ میں جمع ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ دنیا بھر کی مخالفت، لالچ اور دھمکیوں کے باوجود ایٹمی اثاثوں کاا اعلان کس نے کیا، ڈیم، ہوائی اڈوں، میٹرو، لواری ٹنل، کچھی کینال، نیلم جہلم ، بجلی کے کارخانوں پر کس کا نام لکھا ہے اور کیا یہ کوئی معمولی اثاثے ہیں۔
سابق وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنما چوہدری نثار علی خان، مشاہد اللہ خان اور دیگر موجود تھے۔
نواز شریف پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں کے سوال لئے بغیر اپنی نشست سے اٹھ کر چلے گئے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آج جس طرح سپریم کورٹ کے فیصلوں کا مذاق اڑایا گیا، ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہيں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو اپنے دکھوں کا حال بھی چٹ پڑھ کر بتانا پڑے تو پھر اس کا مطلب ہے کہیں خرابی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لندن میں مجنوں کی طرح پھرنے والے نواز شریف کو پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی شاہانہ پروٹوکول کی ضرورت ہوتی ہے ۔