Time 04 اکتوبر ، 2017
بلاگ

شہباز شریف کا مشورہ یا مخالفت

— فوٹو آن لائن

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ نواز کی سیاست میں اتار چڑھاؤ آنا شروع ہوگیا ۔ کسی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے تو کسی نے کہا کہ نوازشریف اپنی اہلیہ کے علاج میں مصروف ہیں۔

 اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی زیر نگرانی احتساب عدالت میں چلنے والے مقدمے میں وہ پیش نہیں ہوں گے اور نہ ہی نواز شریف اب ملک میں واپس آئیں گے۔ 

کسی کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو فارغ کروادیا اور نوازشریف کی محاذ آرائی پر مبنی سیاست جمہوریت کو لے ڈوبےگی لہذا شہباز شریف وہ واحد شخصیت ہیں جو پارٹی کو بحران سے نکال سکتے ہیں۔

لیکن نواز شریف نہ صرف پاکستان واپس آئے بلکہ احتساب عدالت میں بھی پیش ہوئے ۔

 ان کے ملک میں واپس آنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ ان کا برطانیہ کا ویزہ ختم ہورہا تھا جس کی تجدید کے لیے انہیں ہر صورت واپس آنا ہی تھا مگر میرے خیال میں یہ کوئی اہم وجہ نہیں ہوسکتی کیوں کہ اگر نواز شریف پاکستان واپس آنا نہیں چاہتے تو بھی وہ اپنے ویزے کی مدت میں اضافہ کرواسکتے تھے ۔

 میرے نزدیک نواز شریف کا اپنی اہلیہ کو زیرعلاج چھوڑ کر واپس آنے کا مقصد پارٹی پراپنی دسترس کو قائم رکھنا اور پارٹی آئین اور پاکستانی قوانین میں ایسی تبدیلیاں کروانا تھا جس کے بعد وہ قیادت اپنے پاس رکھ سکیں۔

تاہم یہ حقیقت بھی اب سب پر عیاں ہے کہ شہباز شریف کو وزیراعظم اور پارٹی کا صدر بنانے کے اعلانات تو ضرور ہوئے لیکن باوجوہ ان کو عہدے نہیں دیے گئے جسے خاندانی سیاسی تنازع بھی کہا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں پارٹی جنرل کونسل کے موقع پر لی گئی تصویر — فوٹو آئی این پی 

اس نکتہ نظر کو اس بات سے بھی تقویت ملی جب شہباز شریف نے اپنے دل کی بات مسلم لیگ ن کے حالیہ کنونشن میں کردی ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں میاں نواز شریف کو خوشامدی وزراء اور مشیروں سے دور رہنے اور کسی بھی بات پر کارکنوں سے رجوع کرنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔

ان کی تقریر کے بعد چودھری نثار کا نواز شریف کی تقریر سنے بغیر چلے جانا بھی اہمیت رکھتا ہے۔

قریبی خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کی کچھ اہم شخصیات شہباز شریف کو پارٹی کی صدارت یا وزیراعظم کا عہدہ دینے کی مخالف ہیں۔ یہ افراد جانتے ہیں کہ شہباز شریف ایک زیرک سیاستدان ہیں اور اگر پارٹی قیادت ان کے حوالے کی گئی تو نواز شریف پیچھے رہ جائیں گے۔

یہی وجہ تھی کہ میاں نوازشریف پاکستان پہنچے اور ان کے آتے ہی پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے مسلم لیگ ن کے آئین میں صدارت کے لیے ترمیم کردی۔

 اس کے بعد جس تیز رفتاری سے سیاسی جماعت کی صدارت کے عہدے کے لیے ایوان کے ممبر ہونے کی اہلیت کی پابندی کو ختم کرنے کے لیے ترمیمی بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے پاس کروایا گیا اور قانون سازی کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔

 قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کی بعد اسی رات صدر نے بھی منظوری دے دی اور نوازشریف ن لیگ کے صدر بن گئے۔

دوبارہ صدر بنتے ہی نواز شریف نے زوردار تقریر کی بلکہ یوں لگا کہ وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر برس پڑے ، انہوں نے نہایت جارحانہ تقریر کی اور وہ جو کہتے ہیں کہ "کہنا بیٹی کو سنانا بہو کو" نوازشریف نے کہا تم بے دخل کرتے رہو اور عوام نواز شریف کو داخل کرتے رہیں گے۔

 انہوں نے کہا کہ "میں آپ کو وارننگ دے رہا ہوں" اور تنبیہ کرتے ہوئے اشعار میں تو سیدھا پیغام ہی دے دیا کہ اب منت سماجت نہیں ہوگی۔

 ایک طرف نواز شریف نے جن کو سنانا تھا بلواسطہ سنا دیا لیکن دوسری جانب نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی پر وزیر داخلہ سمیت دیگر وزراء کو عدالت کے دروازے پر روک کر جنہوں نے اشارہ دینا تھا انہوں نے دے دیا۔

نواز شریف کی حالیہ تقریروں سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ اب کھل کر سامنے آگئے ہیں اب وہ کسی مفاہمت یا منت سماجت پر یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ وزیراعظم کے عہدے سے نکالنے پر انہیں غصہ ہے۔

— فوٹو آئی این پی

سیانے کہتے ہیں کہ سیاست کو مدبرانہ طریقے سے چلایا جاتا ہے اور اس میں غصے کی گنجائش نہیں ہوتی اور یوں بھی غصے میں کیے گئے فیصلوں سے نقصان ہی ہوتا ہے۔ نواز شریف نے تو غصے کا اظہار کردیا لیکن احسن اقبال نے بھی اپنی تقریر میں کچھ زیادہ ہی سناڈالیں۔

موجودہ حالات میں نواز شریف کو قدم اٹھاتے ہوئے غصے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لینا ہوگا اور پارٹی رہنماوں کو بھی سمجھانا ہوگا کہ وہ اپنی تقاریر میں احتیاط برتیں،، بصورت دیگر نا صرف ان کو بلکہ جمہوریت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ شہباز شریف ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر اور زیرک سیاستدان ہیں، وہ موقع کی نزاکت کو سمجھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ لندن واپس آنے کے ’’فورا‘‘ بعد دوبارہ لندن چلے گئے تاکہ اپنے بڑے بھائی کو سمجھا سکیں لیکن انہیں وہاں موقع نہ مل سکا۔

بہرحال انہوں نے لاہورمیں نواز شریف کو مشورے دیئے، شہباز شریف چاہتے ہیں کہ محاذ آرائی کی سیاست سے دور رہا جائے اور موجودہ حالات میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ضروری ہے۔ شہباز شریف کو اس بات پر داد دینی چاہیے کہ وہ ہر حال میں اپنے بڑے بھائی کے احترام کا خاص خیال رکھتے ہوئے بات کرتے ہیں۔

شہباز شریف کو جو تحفظات ہیں اس کا معمولی سا اظہار انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کردیا کہ یہ نووارد مشیر غلط مشورے دیتے ہیں ان کے بجائے نواز شریف کو مسلم لیگ کے کنبے سے مشورہ کرنا چاہئے۔

 شہباز شریف نے اشعار سناتے ہوئے بھی کہا کہ مایوس نہ ہوں اچھا وقت ضرور واپس آئے گا۔

ان کا کہنا بالکل ٹھیک ہے لیکن ایک روشن سویرا دیکھنے کے لئے رات بھی طریقے سے گزارنی پڑتی ہے،، یعنی اچھی صبح دیکھنے کے لئے ہمیں بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی۔

چند مشیروں کے مشورے سے حالات خراب کرنا کسی طرح سے بھی درست نہیں ہوگا۔ محاذ آرائی سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے بلکہ میرا خیال بھی یہی ہے کہ اس سے حالات خراب ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے۔

 آخر میں یہی کہوں گا کہ شہباز شریف نے مخالفت نہیں کی بلکہ ایک سیاستدان اور بھائی کے طور پر ایک اچھا مشورہ دیا ہے اب نواز شریف پر منحصر ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کا مشورہ مانتے ہیں یا اپنے وزراء اور مشیروں کو اہمیت دیتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔