06 اکتوبر ، 2017
کہتے ہیں وقت سب سے بڑا استاد ہے مگر جس ہستی نے مجھے یہ بات سب سے پہلے بتائی وہ میرے استاد تھے۔ استاد کے ساتھ روح کا رشتہ ہوتا ہے۔استاد کا ادب ہر حال میں فرض ہے۔ میں آج بھی اپنے اساتذہ اکرام کے آگے چلنے کی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
کالج کے دنوں میں ایک وین میں سفر کے دوران میرے اسکول کے زمانے کے استاد ایک اسٹاپ سے بیٹھ گئے۔ وین مسافروں سے بھری ہوئی تھی میں نے استاد محترم کواپنی نشست پیش کی اور اپنا تعارف کروایا تو ان کی آنکھوں میں محبت کی ایک چمک سی آ گئی اور بڑے فخر سے انہوں نے ادھر ادھر دیکھا کہ استاد کا احترام آج بھی معاشرے میں موجود ہے۔
ان کی بوڑھی آنکھوں میں بے غرض محبت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن تھا ان کا فخر دیکھ کر میری روح کی گہرائیوں میں جو سرشاری سی اتری اور جو طمانیت کا احساس ہوا اس کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میری دادی جان فرمایا کرتی تھیں کہ بے ادب بے مراد، باادب بامراد۔
اس سبق کو میں نے ہمیں یاد رکھا یہی وجہ ہے کہ مجھے میرے طالب علموں سے بہت عزت ملی ہےَ جس نوجوان نسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بد لحاظ ہے اسی نسل نے مجھے وہی احترام دیا ہے جو میں دل میں اپنے اساتذہ کے لیے ہے۔
استاد بادشاہ تو نہیں ہوتا مگر بادشاہ بناتا ہے۔جو معاشرے اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے تباہ ہو جاتے ہیں۔ ایک اچھا استاد اپنے طالب علم کا اچھا دوست بھی ہوتا ہے۔وہ اس کی ہر ضررورت کو سمجھتا ہے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آدمی کے تین والد ہوتے ہیں، ایک وہ جو آپ کو دنیا میں لانے کا سبب بنے، دوسرے جنہوں نے اپنی بیٹی آپ کے نکاح میں دی اور تیسرے والد آپ کے استاد جنہوں نے آپ کو تعلیم دی۔
ہمارے ہاں مادیت پرستی کے اس دور میں جہاں قیمتی چیزوں سے بندوں کو تولا جاتا ہے وہاں روحانی اقدار کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی ایک انڈسٹری بن چکا ہے جہاں اساتذہ کو بھی ایک کارکن کی طرح لیا جاتا ہے لیکن جن اقوام نے ترقی کر کے اپنا آپ منوایا ہے وہ آج بھی اساتذہ کا احترام ایک دیوتا کی طرح کرتی ہیں۔
اللہ کی رحمت سے اور پیارے آقا کی محبت سے مختلف موضوعات پر میری کتابوں کی تعداد پچپن سے زائد ہے ہر کتاب کے دیباچے میں، میں نے اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک اپنے تمام اساتذہ اکرام کا ذکر کیا ہے اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
جب میری پہلی کتاب شائع ہوئی تو میں اپنے اسکول کے اساتذہ سے ملنے گیا وہ سب بہت ضعیف ہو چکے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ تقریبا پچیس برس بعد ایک شاگرد ان سے ملنے آیا ہے اور وہ اب صاحب کتاب بھی ہے۔ کتاب کے دیباچے میں اپنا نام دیکھ کر ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے پر فخر نے مجھے وہ سکون اور اطمینان دیا جس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے اپنے لرزتے کمزور ہاتھوں اور نم آنکھوں کے ساتھ میرے سر پر دست شفقت پھیرتے ہوئے جو دعائیں دیں۔ ان دعاؤں کے صدقے میرے رب نے مجھے بہت دیا آج ان میں سے اکثر اس فانی دنیا میں نہیں لیکن ان کا یہ شاگرد بھیگی آنکھوں کے ساتھ ان کی یادوں کو لیے رب کائنات سے اپنے اساتذہ اکرام کے لیے دعا گو ہے۔
آج اس شاگرد کی پچپن کتابوں میں ان کے اسمائے گرامی موجود ہیں جو ان کی عظمت کےثبوت کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کی بھی گواہی دے رہے ہیں۔ اللہ کریم ان اساتذہ اکرام جو دنیا میں نہیں ہیں ان کی اپنے حبیب کے صدقے سے مغفرت فرمائے اور جو ہمارے پاس ہیں ہمیں ان کا ادب کرنے کی توفیق دے اور ان کو صحت و تندرستی والی طویل عمر عطا فرمائے۔ آمین
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔