10 اکتوبر ، 2017
دبئی ٹیسٹ میں شکست کے ساتھ ہی پاکستانی ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر کسی ٹیسٹ سیریز میں 2007 کے بعد پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارت سے شرم ناک شکست کھانے والی سری لنکن ٹیم نے دوسرے ٹیسٹ میں بھی پاکستان کو 68 رنز سے شکست دے کر 0-2 سے وائٹ واش کیا۔
مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پہلی مرتبہ کسی امتحان کا سامنا کرنے والی پاکستانی ٹیم نے میچ میں متعدد غلطیاں کی اور ٹیم میں سینئر کھلاڑیوں کی کمی شدت سے محسوس کی گئی ۔
ان ہی غلطیوں میں سے پانچ بڑی غلطیوں کا ذکر ہم یہاں کر رہے ہیں:
مصباح الحق کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم کا متحدہ عرب امارات میں فارمولہ ہمیشہ ایک ہی ہوتا تھا۔ پہلے بیٹنگ کرو، بڑا اسکور کرو اور اسپنرز کے ذریعے دوسری ٹیم کو آؤٹ کردو۔
بدقسمتی سے سرفراز ٹیسٹ قیادت کے پہلے دونوں ہی ٹاس ہار گئے لیکن ٹیم کے انتخاب میں انہوں نے غلطی کی۔ ان کی صرف ایک اسپنر کو ٹیم میں شامل کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر تھی۔
یاسر شاہ نے سیریز میں اچھی بولنگ کی تاہم دوسرے اینڈ سے انہیں زیادہ سپورٹ نہ مل سکی۔
ماضی میں سعید اجمل -عبد الرحمان اور یاسر شاہ-ذوالفقار بابر کی جوڑیوں نے مہمان ٹیموں کو ہمیشہ مشکلات میں مبتلا کیا۔
سیریز کے نتیجے کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ سرفراز الیون کا تین فاسٹ بولروں کو کھلانے کا فیصلہ غلط ثابت ہوا۔
سیریز سے قبل حارث سہیل کے انتخاب پر کرکٹ کے پنڈتوں نے سوالات اٹھائے تھے تاہم اس کے اختتام پر حارث نے خود پر اٹھنے والے سوالات کا جواب اپنی بیٹنگ سے دیا۔
یوں تو پاکستان کی بیٹنگ سیریز میں مایوس کن رہی تاہم سیریز میں ڈیبیو کرنے والے حارث سہیل کی بلے بازی اگر شاندار نہیں تھی تو اسے برا بھی نہیں کہا جا سکتا۔
بائیں ہاتھ کے بلے باز کو چھٹے نمبر پر بھیجا گیا تھا جہاں عام طور پر اسد شفیق بیٹنگ کرتے ہیں۔ سیریز کے زیادہ تر مواقعوں پر حارث سہیل ایسے وقت بیٹنگ کرنے آئے جب ٹیم پہلے ہی مشکلات میں گری ہوتی تھی۔
حارث کو اگر نمبر چار پر کھیلایا جاتا تو پاکستان کے لیے مصیبت بننے والے رنگانا ہیراتھ سے بھی بہتر انداز میں مقابلہ کیا جاسکتا تھا۔ سیریز میں اگر کوئی بلے باز رنگانہ ہیراتھ کےخلاف پراعتماد نظر آئے تو وہ حارث سہیل ہی تھے۔ دائیں اور بائیں ہاتھ کی جوڑی نے دنیا بھر کے کپتانوں کو ہمیشہ پریشان کیا ہے تاہم ٹیم میں تین بائیں ہاتھ کے بلے باز ہونے کے باوجود گرین شرٹس اس سے فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
کپتان سرفراز نے بھی خود کو ساتویں نمبر پر رکھ کر ضائع کیا۔ مصباح اور یونس کی عدم موجودگی میں ٹیم کے کپتان کو مڈل آرڈر میں ذمہ داری نبھانی چاہیے تھی۔
سرفراز پاکستان کے خلاف 100 سے زائد وکٹیں لینے والے ہیراتھ کو دیگر بلے بازوں کے مقابلے میں بہتر انداز میں کھیلتے ہیں اور ان کی جارحانہ بیٹنگ سے مہمان ٹیم کے سب سے بڑے خطرے کو بے اثر کیا جاسکتا تھا۔
فرسٹ کلاس کرکٹ میں 56.12 کی اوسط سے 10 ہزار سے زائد رنز بنانے والے فواد عالم کی ٹیم میں عدم شمولیت خاص کر ایک ایسے موقع پر جب انہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے پہاڑ بنارکھے ہوں اور مصباح الحق اور یونس خان ریٹائرمنٹ کے باعث ٹیم میں موجود نہ ہوں، حیران کن تھی۔
فواد اگر ٹیم میں شامل ہوتے تو غالباً اظہر علی جو کہ کچھ عرصے سے اوپن کررہے تھے اور جہاں انہوں نے حال میں کافی رنز بھی بنائے ہیں، کی بیٹنگ پوزیشن تبدیل نہ کرنی پڑتی۔
فواد بھی بائیں ہاتھ ہی سے بیٹنگ کرتے ہیں جو رنگانا ہیراتھ کا سامنے دائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے مقابلے میں بہتر انداز میں کرسکتے تھے۔
پاکستان کی جانب سے ایک روزہ میچ میں سب سے برے اعداد و شمار رکھنے والے وہاب ریاض نے پھر شائقین کا مایوس کیا۔
وہاب کو دوسرے میچ میں حسن علی کی جگہ شامل کیا گیا تاہم پہلی اننگز کے ایک موقع پر وہاب اپنا رن اپ ہی بھول گئے۔ وہاب کو ایک بال کروانے کے لیے پانچ مرتبہ دوڑ کر آنا پڑا۔
آسٹریلیا کے خلاف ورلڈ کپ 2015 کے اسپیل کے بعد سے وہاب کی بولنگ تنزلی کا شکار رہی ہے۔ کبھی وہ اختتامی اوورز میں ان فٹ ہوجاتے ہیں تو کبھی اپنے خلاف ورلڈ ریکارڈ بنوا دیتے ہیں۔
سیلیکٹرز کو سوچنا ہوگا کہ جنید خان کی موجودگی میں کیا واقعی وہاب ریاض کی ٹیم میں جگہ بنتی ہے؟
دنیا بھر کی ٹیمیں اب ٹیسٹ کرکٹ میں بھی تیز رفتاری سے بلے بازی کرکے مخالف ٹیم کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرتی ہیں تاہم پاکستان اب بھی 80 کی دہائی کرکٹ کھیل رہا ہے۔
ہمارا رن ریٹ اب بھی دو سے ڈھائی کے ارد گرد ہی گھوم رہا ہوتا ہے جبکہ دنیا بھر کی ٹیمیں ساڑھے تین سے چار کے درمیان اپنا رن ریٹ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس طرح کی منفی کرکٹ کی جدید کرکٹ میں جگہ نہیں۔ اس سے ٹیم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا جبکہ مخالف ٹیم اندر موجود بلے بازوں ہر حاوی ہوجاتی ہے۔
اگر پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ میں کامیاب ہونا ہے تو اس نئی سوچ کو اپنانا ہوگا۔